درد اور کرب سے کون شخص ناآشنا ہو گا؟
درد اور کرب سے کون شخص ناآشنا ہو گا؟ ہر کوئی کبھی نہ کبھی ‘ کسی نہ کسی شکل میں ضرور اس سے دوچار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ مگر درد کے کچھ مثبت پہلو بھی ہوتے ہیں، مثلاً:
جب ہم درد میں مبتلا ہوتے ہیں تو بے ساختہ زبان پر اللہ کا نام آ جاتا ہے اور ہم بار بار اس کو پکارتے ہیں۔ اس طرح اُس کا پاک نام ہمارا وردِ زبان بن جاتا ہے جو ہمارے نامۂ اعمال میں مسلسل درج ہوتا رہتا ہے۔
بعض اوقات ایک طالب علم نالائق رہ جانے کے خوف اور دوسرے سے آگے بڑھنے کے شوق کی وجہ سے مسلسل مطالعہ کرتا ہے ۔ پڑھتے پڑھتے تنگ آ کر اس کے منہ سے ’’اُف اللہ‘‘ نکلتا رہتا ہے۔ وہ اپنے اوپر جبر کر کے پڑھتا رہتا ہے حتیٰ کہ مطالعہ کرنا اس کی عادتِ ثانیہ بن جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ اس کا شمار علماء و فضلاء میںہونے لگتا ہے۔
شاعر کو شروع شروع میں کوئی اہمیت نہیں ملتی ‘ پھر بھی وہ مشقِ سخن جاری رکھتا ہے اور ایسے افراد کا متلاشی رہتا ہے جو توجہ سے اس کا کلام سن سکیں ۔ اس میں عموماً اسے ناکامی ہوتی ہے تو اُسے صدمہ ہوتا ہے۔ پھر وہ اکیلے ہی اپنا کلام بہ آواز بلند پڑھتا ہے۔ پڑھتے پڑھتے اس کے لب و لہجے میں ایک سوز پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کا سوز اپنے سامعین خود تلاش کر لیتا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ شاعر عموماً معاشرتی اونچ نیچ اور ناانصافیوں کے خلاف بہ زبانِ شعر احتجاج کرتے ہیں۔ جو لوگ ناانصافیوں کا شکار ہوئے ہوتے ہیں ‘ ان کے لیے اس شاعر میں ایک اپیل پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس کے کلام میں اپنے جذبات کا عکس پاتے ہیں تو ایسی شاعری کے گرویدہ ہو جاتے ہیں ۔ راشد الخیری جنہیں ’’مصورِ غم‘‘ کہا جاتا ہے ‘ وہ اچانک منظرِعام پر نہیں آئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ابتداء میں انہیں پذیرائی نہ ملنے پر صدمے یا دردِ بے اعتنائی سے سابقہ پڑتا رہا ہو۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا کا بیشتر لٹریچر نامساعد حالات میں تیار ہوا ہے۔ مصنفین کو کسی نہ کسی وجہ سے قید و بند کا سامنا کرنا پڑا ‘ چنانچہ بہت سا لٹریچر جیلوں میں لکھا گیا جن میں چند تفاسیر اور تراجم بھی شامل ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگوں کے لیے قید و بند ‘ خیر انگیز ثابت ہوتی ہے۔ بشرطیکہ اس آزمائش سے دوچار ہونے والا شخص ابتلائوں کے مثبت پہلو تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔