شب برأت کو کون سے خاص اعمال کریں؟
شب برأت کی فضیلت کے پیش نظر بہت سے لوگ خاص اعمال اور خاص عبادت سے متعلق سوال کرتے ہیں، اس سلسلے میں چند باتیں پیش نظر رہنا ضروری ہیں۔
٭ نفلی عبادت تنہائی میں اور اپنے گھر میں ادا کرنا افضل ہے، گھروں میں خواتین اور بچوں کو کہیں کہ شام سے پہلے پہلے سارے کام نمٹا لیں اور عشاء کے بعد جس قدر ممکن ہو سکے نوافل ،تلاوت کلام پاک ،ذکر اذکار اور یاد الٰہی میں وقت گزارہ جائے بعض بزرگوں کا شب برأت میں صلوۃ التسبیح پڑھنے کا معمول رہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں بناؤ یعنی نوافل گھر میں ادا کرو اور ان کو قبرستان نہ بناؤ کہ قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاتی (تحفۃ القاری)
٭ اس رات میں (اسی طرح شب قدر میں بھی) عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں، ذکر وتلاوت، نفل نماز، صلاۃ التسبیح وغیرہ کوئی بھی عبادت کی جاسکتی ہے۔
٭اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق عبادت کرنی چاہیے، اتنا بیدار رہنا صحیح نہیں ہے کہ آدمی بیمار ہوجائے۔
٭پورے سال فرض نماز کا اہتمام کیا جائے، صرف شب برأت میں نفلی عبادت کرکے اپنے کو جنت کا مستحق سمجھنا باطل خیال ہے، یوں اللہ تعالیٰ مختار کل اور قادر مطلق ہے جس کو چاہے معاف کرسکتا ہے۔
٭بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس رات میں ایک مخصوص طریقے سے دو رکعت نماز پڑھ لی جائے تو جو نمازیں قضا ہوگئیں وہ سب معاف ہوجائیں گی، یہ بات بالکل بے اصل ہے۔
٭شب برات میں فضول گپ شپ میں شب بیداری کرنا، گلیوں، چوراہوں اور ہوٹلوں میں وقت گذارنا بالکل بے سود، بلکہ ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘ کا مصداق ہے۔
قبرستان جانے کا مسئلہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس رات قبرستان تشریف لے گئے، مگر واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اس قدر خفیہ تھا کہ آپ نے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بھی اپنے جانے کو مخفی رکھا اور کسی بھی صحابی کو اپنے ساتھ نہیں لے گئے اور بعد میں بھی کسی صحابی کو اس عمل کی ترغیب دینا ثابت نہیں، اس لیے شب برات میں ٹولیوں کی شکل میں قبرستان جانا، اس کو شب برات کا جز ولازم سمجھنا،یہ دین میں زیادتی اور غلو ہے، بغیر کسی اہتمام اور پابندی کے قبرستان جانا چاہیے!
پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھنا
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث شریف پر عمل کرتے ہوئے امت میں پندرہویں تاریخ کے روزہ رکھنے کا معمول رہا ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ماہِ شعبان کے اکثر حصے کے روزے رکھے جائیں، یہ نہ ہو سکے تو ماہ شعبان کے نصف اوّل کے روزے رکھے جائیں، یہ بھی نہ ہو سکے تو ایام بیض (13,14,15 شعبان) کے روزے رکھے جائیں اور اتنا بھی نہ ہو سکے تو کم ازکم پندرہ شعبان کا روزہ تو رکھ ہی لے، یہ روزہ بھی ان شاء اللہ موجب اجر ہوگا۔ اس حوالے سے حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامۃ برکاتہیم العالیہ فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی شخص ان دو وجہ سے 15شعبان کا روزہ رکھے، ایک اس وجہ سے کہ یہ شعبان کا دن ہے اور ماہ شعبان کے روزے مسنون ہیں، دوسرے اس وجہ سے کہ یہ 15تاریخ ایام بیض میں داخل ہے، اگر اس نیت سے روزہ رکھ لے تو ان شاء اللہ مؤجب اجر ہو گا‘ لیکن خاص پندرہ تاریخ کی خصوصیت کے لحاظ سے اس روزے کو سنت قرار دینا بعض علماء کے نزدیک درست نہیں۔‘‘ (اصلاحی خطبات: ج 4ص 268)