سیاستدان، سیاسی مفاہمت کیلئے تیار کیوں نہیں؟

پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے، دل خون کے آنسو روتا ہے، ایک مخصوص طبقے کے علاوہ عوام کی اکثریت مسائل کی شکار ہے مگر ارباب حل و عقد کو اپنے بکھیڑوں سے فرصت نہیں ہے۔ حیرت ہے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر ہیں، تین ارب ڈالر کے کے قریب ذخائر بتائے جا رہے ہیں وہ بھی ہمارے اپنے نہیں ہیں، چین، سعودی عرب اور عرب امارات نے ادائیگیوں کو مؤخر کر دیا ہے اگر یہ ادائیگیاں مؤخر نہ ہوتیں تو صورتحال ڈیفالٹ کی طرف جانی تھی۔

چند روز قبل ہمارے ایک دوست سری لنکا سے واپس آئے تو ہم نے وہاں کے حالات بارے استفسار کیا، اور شکر ادا کیا کہ پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ نہیں ہوا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ کاش ہم بھی سری لنکا کی طرح بن جائیں، وجہ جاننا چاہی تو کہنے لگے کہ وہاں کے عوام معاشی بحران کے باوجود منظم ہیں کوئی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے اور شرح خواندگی نہایت بلند ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو بدنظمی عروج پر ہے، ڈسپلن پر چلنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔ خدانخواستہ اگر ہم ڈیفالٹ کی طرف گئے تو یہاں صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ اہل سیاست ہی معاشی بحران کے اصل ذمہ دار ہیں، چند برس پہلے تک اہل سیاست کو شکوہ تھا کہ مسلسل مارشل لا لگنے اور جمہوریت ڈی ریل ہونے کی وجہ سے ہم جمہوریت کے ثمرات سے مستفید نہیں ہو پائے ہیں، تاہم پچھلے 15برسوں سے ملک میں جمہوری حکومتیں قائم ہیں اس کے باوجود مسائل حل نہیں ہو پائے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ نظام میں خرابی نہیں بلکہ ان لوگوں میں ہے جن کی نظام پر اجارہ داری ہے۔

جن ادوار میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام رہا ہے انہی ادوار میں ہمارے پڑوسی ملکوں نے ترقی کی منازل طے کی ہیں، بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کے ایک جیسے حالات تھے وسائل بھی کم و بیش ایک جیسے ہیں، پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک نے ترقی حاصل کی جبکہ ہم آج بھی وہیں پر کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے کیونکہ ہم نے حالات کی سنگینی سے کچھ بھی نہیں سیکھا ہے۔ سیاسی مفاہمت وقت کی ضرورت ہے مگر اہل سیاست ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ہیں، صاف ظاہر ہے جب تک یہ دنگا فساد ختم نہیں ہو گا ملک ترقی نہیں کر سکے گا، ترقی تو دور کی بات عوام کے معمولی نوعیت کے مسائل ہی حل نہیں ہو سکیں گے۔

کسی بھی ملک کی ترقی میں عوامی شعور کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے، اس ضمن میں دیکھا جائے تو پاکستان کے عوام کی شعوری سطح بہت پست ہے، عوام کی غالب اکثریت کبھی ایک سیاسی جماعت سے امیدیں وابسطہ کرتی ہے کبھی دوسری جماعت سے۔ جو سیاسی جماعت متعدد بار حکومت میں رہ چکی ہے وہ دوبارہ عوام کی آنکھ کا تارا بن جاتی ہے اور عوام یہ سوال تک نہیں کرتے ہیں کہ آپ کے پاس معاشی بحران سے نجات کا کیا پروگرام ہے۔ سیاسی جماعتوں نے ملک کے مسائل کو حل کرنا تھا مگر وہ اپنے مفادات سے بالا ہو کر سوچنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ملک کے موجودہ معاشی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ سیاسی جماعتیں باہم مل بیٹھیں اور دیرپا منصوبے کے تحت ایک جامع معاشی پروگرام تشکیل دیں مگر صورتحال یہ ہے کہ وہ اب بھی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ ملک کے 22کروڑ عوام جن مسائل سے دو چار ہیں اہل سیاست کو ویسے مسائل کا سامنا نہیں ہے، اگر کبھی مشکل حالات آ بھی گئے تو وہ پورے خاندان کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک میں چلے جائیں گے اور حالات معمول پر آنے کے بعد وہ واپس آ جائیں گے۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے مذاکرات اور سمجھوتہ کی بات کی ہے تو ان کے سیاسی حریف یہ کہہ کر اس پیشکش کو مسترد کر رہے ہیں کہ جب انہوں نے آفر کی تھی تب عمران خان بات کرنے پر آمادہ نہ تھے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ملک و قوم کے مفاد سے زیادہ اپنی انا کی فکر لاحق ہے۔ ایسی سوچ کی حامل سیاسی جماعتوں سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کو معاشی بحران سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button