حضرت یونس کی توبہ میں سیکھنے کی باتیں

حضرت یونس علیہ السلام انتہائی غصے والے انسان تھا ۔ جب بار بار وعظ و نصیحت کے بعد قوم نے انہیں جھٹلایا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے انہیں بتایا کہ اس قوم پر عذاب نازل ہونے والا ہے تو وہ انہیں تین دن میں عذاب آنے کا بتا کر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ وہاں سے نکل گئے اور پہاڑ پر چڑھ کر عذاب کا انتظار کرنے لگے۔ قوم نے عذاب کو دیکھ کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے عذاب دور کر دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام کے پاس شیطان آیا کہ اب قوم کے پاس واپس گئے تو وہ تمہیں تہمت دے گی اور جھٹلائے گی ‘ لہٰذا وہ واپس ادھر جانے کی بجائے دجلہ کے کنارے پہنچ کر ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ جب کشتی دریا کے درمیان پہنچی تو اللہ کے حکم سے وہ ٹھہر گئی اور ڈولنے لگی۔ لوگوں کو حضرت یونس علیہ السلام نے بتایا کہ کشتی میں ایک بھاگا ہوا غلام ہے اور اسے دریا میں پھینکنے تک کشتی آگے نہیں بڑھے گی۔

لہٰذا فیصلہ ہوا کہ قرعہ ڈالا جائے جس کا نام نکل آئے اُسے پانی میںڈال دیا جائے۔ تین دفعہ قرعہ ڈالا گیا اور تینوں دفعہ حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکلا لیکن لوگ نہ مانے ۔ یونس علیہ السلام کہنے لگے کہ مجھے پانی میں ڈالو اور نجات حاصل کرو۔ یونس علیہ السلام کو پانی میں ڈالنے کے لیے کشتی کی جس جانب لے کر جاتے وہاں ایک مچھلی منہ کھولے موجود ہوتی۔ اور جب کوئی راستہ نہ پاکر انہیں پانی میں پھینکا تو مچھلی نے پانی تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنا لقمہ بنا لیا اور انہیںلے کر سمندر میں اپنے ٹھکانے پر چلی گئی‘ اس کے بعد پھر زمین کی حد پر لے چلی، اس طرح اس نے چالیس دن تک سمندر کا چکر لگایا۔ حضرت یونس علیہ السلام نے کنکریوں اور مچھلیوں کی تسبیح سنی اور پھر خود بھی تسبیح ‘ تہلیل اور تقدیس کرنے لگے ۔ وہ اپنی دعائوں میں کہتے : ’’میرے آقا‘ آسمان میں تیرا مسکن ہے‘ زمین میں تیری قدرت اور عجائب ہیں۔ میرے آقا پہاڑوں پر تو نے مجھے اتارا ‘ زمین میں سیر کرائی اور تین اندھیروں میں قید کر دیا۔ خدا تو نے مجھے ایسی جیل میں بند کیا‘ جس میں مجھ سے پہلے کسی کو نہیں کیا‘ میرے خدا تو نے مجھے ایسی سزا دی ہے جو اس سے پہلے کسی کو نہیں دی۔‘‘

چالیس روز بعد یونس ؑ پر غم طاری ہوا اور انہوں نے اللہ کو پکارا: ’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں ‘ تیری ذات پاک ہے‘ بے شک میں ظالموں میں سے تھا۔‘‘ یونس ؑ کی بکاء اور رونے پر فرشتے بھی رونے لگے تو رب ذوالجلال کے پوچھنے پر قصہ بیان کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ میرا بندہ یونس ہے جس سے لغزش سرزد ہوئی تو میں نے اسے مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیا۔ پھر ملائکہ‘ آسمانوں اور زمینوں نے ان کے لیے شفاعت کی جس پر اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کے ذریعے مچھلی کو پیغام دیا کہ جہاں یونسؑ کو لقمہ بنایا تھا وہیں واپس اگل دے۔

مچھلی کہنے لگی کہ اے میرے رب میں تیرے بندے کی تسبیح سے مانوس ہو گئی تھی اور تو نے اسے مجھ سے دور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس کی لغزش معاف کر دی ہے۔ مچھلی نے جب یونس ؑ کو اگلا تو ان کی حالت ایک بغیر بالوں کے چوزے جیسی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کدو کی ایک بیل اُگا دی ‘ اس کا بہت زیادہ سایہ تھا‘ اسے حکم دیا کہ اپنی ٹہنیوں سے حضرت یونس ؑ کو رس پلائے جیسے بچے کو دودھ پلایا جاتا ہے۔ حسن سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس ؑ کے پاس ایک پہاڑی بکری کو بھیجا جو انہیں بچے کی طرح دودھ پلاتی اور جب اُن کا پیٹ بھرجاتا تو وہ بکری چلی جاتی حتیٰ کہ حضرت یونس ؑ کی وہ حالت لوٹ آئی جو مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے تھی۔ اس کے بعد کسی گزرنے والے نے انہیں کپڑے پہنا دیے۔

پھر اللہ کے حکم سے سورج نے اُس پودے کو جلا دیا جو ان پر سایہ کیے ہوئے تھے‘ جب سورج کی تپش سے حضرت یونس ؑ کی جلد جلنے لگی تو انہوں نے کہا: اے میرے رب! تو نے مجھے اندھیروں سے نجات دلائی ‘ پودے کا سایہ عطا فرمایا اب اسے جلا دیا‘یہ کہہ کر آپ رونے لگے۔ اتنے میں حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا کہ اے یونس! اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ کیا اس درخت کو تو نے بویا یا اگایا تھا؟ تیرا رونا اس کے بعد ہے کہ یہ اللہ نے تمہیں عطا کیا تھا۔ تم نے تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد آدمیوں کیلئے بددعا کیوں کی؟کیا تم انہیں ہلاک کرنا چاہتے تھے؟ اب حضرت یونسؑ کو اپنی لغزش کا علم ہوا تو استغفار کیا اور رب تعالیٰ سے مغفرت طلب کی تو رب ذوالجلال نے انہیں معاف کر دیا۔پھر یونس ؑ کو جب قوت حاصل ہو گئی تو دائیں بائیں کہیں نکل گئے جہاں ایک شخص مٹکے بنا کر روزی روٹی کما رہا تھا۔ اللہ نے حضرت یونس علیہ السلام سے کہا کہ اس سے کہو کہ اپنے مٹکے توڑ دو۔ جب انہوں نے مٹکے بنانے والے سے یہ کہا تو وہ ناراض ہونے لگا کہ آپ مجھے خرابی کا حکم دے رہے ہو کہ میں ایسی چیز توڑ دوں جسے میں نے محنت کر کے بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس ؑ پروحی کی کہ ’’ دیکھا یہ مٹکے والا مٹکے توڑنے کے مشور ے پرکتنا غصے ہو رہا ہے اور تم مجھے اپنی قوم کو ہلاک کرنے کیلئے کہہ رہے تھے۔ تمہیں کون سی بات شاق تھی کہ یہ ایک لاکھ سے زائد آدمی اصلاح کر لیتے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’اگر یونس تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا (یعنی مصیبت میں مبتلا ہونے کے بعد) تو مچھلی کے پیٹ میں یوم حشر تک رہتا۔ (صافات آیت نمبر ۱۴۳)
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص خوشحالی میں اللہ کو یاد رکھتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ اسے تنگی اور بدحالی میں یاد رکھتے ہیں اور اس کی دعا قبول فرماتے ہیں۔ اور جو شخص خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے سے غافل رہتا ہے اور محض تنگی میں ہی یاد کرتا ہے تو اللہ اس کی دعا قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور مچھلی والا جب غصہ میں چلا گیا اور اس نے گمان کیا کہ ہم اس پر قادر نہ ہو سکیں گے ‘ تو اس نے اندھیروں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تیری ذات پاک ہے، بے شک میں ہی ظالموں میں سے تھا۔ تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے غم سے نجات عطا کی اور اسی طرح ہم مومنین کو بچاتے ہیں۔ ‘‘ (سورۃ الانبیاء آیت نمبر ۸۷۔۸۸)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:’’ہم اسی طرح صالحین کے ساتھ کرتے ہیں جب وہ کسی غلطی میں پڑ جاتے ہیں‘ پھرتوبہ کرتے ہیں تو میں قبول کر لیتا ہوں۔‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بھائی یونس علیہ السلام نے یہ دعا اندھیروں میں مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات دی‘ تو اب کوئی تکلیف میں مبتلا مومن اس کے ذریعے دعا کرے گا تواللہ تعالیٰ اس سے وہ تکلیف دور فرما دیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جس کے خلاف نہیں ہوتا۔ (ترمذی باب ۸۲ حدیث ۳۵۰۵)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button