سستی اور کاہلی پریشانی کا باعث
پریشان حال لوگوں میں اکثریت سُست اور بے عمل لوگوں کی ہوتی ہے۔ انہیں گپ بازی اور افواہ سازی کا چسکا پڑ جاتا ہے ۔ افواہوں اور گپ کے لیے انہیں چغل خوری بھی کرنی پڑتی ہے ۔
سُستی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے لیے کوئی مفید اور دلچسپ مشغلہ تلاش کر یں‘ مثلاً : لکھنا ، پڑھنا ‘ تلاوت کرنا ‘ اچھے دوستوں سے ملاقات کے لیے جانا اور بیماروں کی بیمار پرسی کرنا وغیرہ ۔ ان میں سے جو مصروفیات بھی آپ اختیارکر سکیں ‘ وہ آپ کو کاہلی اور سُستی سے بچائے گی۔
لوگوں سے میل ملا اور تعلقات بڑھانے کے راستے میں بعض اوقات یہ رکاوٹ پڑ جاتی ہے کہ وہ آپ کی توقع کے مطابق آپ کا پُرجوش خیر مقدم نہیں کرتے۔ آپ ان کے روپے کی پرواہ نہ کریں اور اپنا کام تندہی سے جاری رکھیں۔ آپ کا ہمدردانہ رویہ آخر کار ضرور رنگ لائے گا اور لوگ اپنی مجالس میں آپ کی شرکت کو ناگزیر سمجھیں گے۔
ایک بہت بڑے فقیہ کا یہ طرز بڑا مفید اور دلچسپ تھا۔ وہ یہ کرتے کہ اپنے علاقے کی مسجد میں نماز کے بعد کسی دوسرے محلے کی مسجد کے قریب جا پہنچتے جہاں لوگ نماز پڑھ کر باہر نکل رہے ہوتے ۔ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے مصافحہ کرتے اور ان کی خیریت و عافیت پوچھتے ۔اس طرح سلام دعا کا تبادلہ ہوتا رہتا اور وہ مسلمان بھائیوں سے خندہ پیشانی سے ملنے کا ثواب بھی کماتے۔ آج کل کسی کے پاس ’’فالتو‘‘ وقت ہو اور وہ اسے بہتر مصرف میں لانے سے قاصر رہے تو کہتا ہے :
’’میں بور ہو رہا ہوں۔‘‘
اسے انگریزی میں "Killing the time”(وقت کو قتل کرنا ) کہا جاتا ہے۔ بھلا وقت کو کون "Kill”کر سکتا ہے؟ جتنا وقت وہ بزعمِ خویش ’’قتل‘‘ کرتا ہے ‘ وہ دراصل ہاتھ سے نکل جانے والا وقت ہوتا ہے جسے کبھی واپس نہیں آنا ہے۔ اور وہ بالآخر ہمارے لیے ایک پچھتاوا بن جاتا ہے ۔ پنجاب کے دیہی علاقوں کسی زمانے میں ’’پکی روٹی‘‘ نام کی ایک کتاب بہت پڑھی جاتی تھی ۔ یہ پنجابی زبان میں تھی۔ اس کتاب کے آخری صفحے پرایک نہایت رقت انگیز نظم اردو میں لکھی ہوئی تھی۔ نظم کے چند اشعار میری یادداشت کے مطابق یہ تھے ؎
دلا! غافل نہ ہو یک دم‘ یہ دنیا چھوڑ جانا ہے
باغیچے چھوڑ کر خالی‘ زمیں اندر سمانا ہے
تیرا نازک بدن بھائی‘ جو لیٹے سیج پھولوں پر
ہووے کا ایک دن مردار‘ یہ کرموں نے کھانا ہے
اجل کے روز کو کر یاد‘ کر سامان چلنے کا
زمیں کے فرش پر سونا ہے ‘ جو اینٹوں کا سرہانا ہے
کہاں وہ ماہِ کنعانی ‘ کہاں تختِ سلیمانی
گئے سب چھوڑ یہ فانی‘ اگر نادان و دانا ہے
نظر کر اڑیاں خالی‘ کہاں وہ ماڑیاں والے
سبھی کوڑا پسارا ہے ‘ دغا بازی کا بانا ہے
فرشتہ روز کرتا ہے منادی چار کوٹھوں پر
محلاں اونچیاں وال تیرا قبریں ٹھکانا ہے
کیا انسان وقت کو قتل کرتا ہے یا وقت انسان کو قتل کرتا ہے ۔ جس مٹی کے پُتلے کو آخر میں اس حشر سے دوچار ہونا ہے ‘ وہ وقت کو کیسے قتل کر سکتا ہے؟ ایسا کہنے والے لوگوں کو اپنی عقل کا ماتم کرنا چاہیے جو انہیں وقت کا مصرف نہیں بتا سکی۔