آسانی ہمیشہ مشکلوں کے بعد آتی ہے
گرمیوں کے موسم میں گرد و غبار سے بھری ہوئی آندھی جب اٹھتی ہے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مصیبت کے سوا اور کچھ نہیں۔ مگر روس کے ماہرین موسمیات نے قراقرم کے ریگستانوں میں تحقیقات کے بعد بتایا ہے کہ گرد بھری ہوئی آندھیاں زمین پرموسم کی سختی کنٹرول کرنے کے لیے ایک قدرتی ذریعہ ہیں۔
جب آندھیاں چلتی ہیں تو ان کی وجہ سے گرد اٹھ کر اوپر فضا میں چھا جاتی ہے اور فضا میں ایک غلاف کی صورت بنا لیتی ہے۔ اس طرح یہ آندھیاں زمین کی سطح کو گرمی کی تپش سے محفوظ رکھتی ہیں۔ روسی سائنس دانوں نے مختلف آلات اور جہازوںکا استعمال کر کے آندھیوں کی خصوصیات کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سخت گرمی کے دنوں میں بھی ریگستان کی تپتی ہوئی سطح اس وقت ٹھنڈی ہو جاتی ہے جب گرد سے بھری ہوئی آندھیاں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ گرد کے یہ سایہ دار بادل فضا میں بھی چھا سکتے ہیں اور کافی دور تک بھی‘ جیسے عرب سے جنوبی امریکہ تک اور وسطی ایشیا سے بحر آرکٹکا تھا۔
قدرت کا نظام کچھ اس طرح بنا ہے کہ ہر مفید واقعہ کسی پر مشقت عمل کے بعد ظہور میں آتا ہے۔ یہ ایک سبق ہے جو بتاتا ہے کہ ہم جب اپنی زندگی کے بارے میں کوئی منصوبہ بنائیں تو اس حقیقت کو ضرور سامنے رکھیں کہ مطلوبہ نتیجہ کو حاصل کرنے کے لیے ہم کو جدوجہد کے پرمشقت دور سے گزرنا ہو گا۔ موجودہ دنیا کو اس کے بنانے والے نے اسی ڈھنگ پربنایا ہے اور اس سے مطابقت کر کے ہی ہم کوئی مفید نتیجہ برآمد کر سکتے ہیں۔ اگر ہم یہ چاہیں کہ ہم کو ’’آندھی‘‘ کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے اور اس کے بغیر ہی ہمارے سروں پر ٹھنڈا بادل سایہ کرے تو ایسے نتیجہ کو پانے کے لیے بھی ہمیں دوسری کائنات بنانی پڑے گی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر حالات میں ناکامی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی فوراً کامیابی چاہتا ہے۔ ’’مختصر راستہ‘‘ کا لفظ سڑکوں اور پگڈنڈیوں کی دنیا کے لیے صحیح ہے مگر زندگی کی جد وجہد میں ’’مختصر راستہ‘‘ قسم کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ سورت میں ہیرے کی ایک دکان موجود ہے جو دوسری منزل پر ہے۔ ایک نوجوان اس دکان میں داخل ہوا۔ اس نے ایک ہیرا چرا لیا اور اس کو لے کر باہر نکلنا چاہا۔ مگر دکان کے آدمیوں کو شبہ ہو گیا ۔ انہوں نے فوراً سیڑھی کا دروازہ بند کر دیا اور نوجوان سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔ نوجوان نے دیکھا کہ سیڑھی کے راستہ سے اس کے لیے بھاگنا ممکن نہیں ہے ۔ وہ تیزی سے قریب کی کھڑکی میں داخل ہوا اور وہاں سے نیچے چھلانگ لگا دی۔ بظاہر اس نے باہر نکلنے کے لئے چھلانگ لگائی تھی۔ مگر دوسری منزل سے جب وہ سڑک پر گرا تو اتنی سخت چوٹ آئی کہ وہ وہیں سڑک پر مر گیا۔ (ٹائمز آف انڈیا ، 21جنوری 1980ء)
’’سیڑھی‘‘ کا راستہ اگر کسی کو بند نظر آئے تو وہ ’’کھڑکی‘‘ سے چھلانگ لگا کر سڑک پر نہیں پہنچ سکتا۔ ایسی چھلانگ اس کو جہاں پہنچائے گی وہ قبر ہے نہ کہ سڑک… بظاہر یہ ایک احمق نوجوان کا قصہ معلوم ہوتا ہے ۔ مگر بہت سے عقل مند لوگ بھی ٹھیک اسی طریقہ کو اپنی زندگی میں دہراتے ہیں اور بالآخر اسی انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘ جس سے مذکورہ نوجوان دوچار ہوا تھا۔