رخصت ہونے والی بیٹی کو ماں کی نصیحت
بیٹی اب تم اس گھر سے رخصت ہو رہی ہو، جہاں تم نے بچپن کے دن گزارے اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا‘ اب تم ایسے بستر کی زینت بنو گی جس کی خوشبو تمہارے لیے اجنبی ہے اور ایسے رفیقِ سفر کے ساتھ قدم بقدم چلو گی جس سے تم مانوس نہیںہو۔
لہٰذا بیٹی! تم اپنے رفیقِ حیات کے لیے زمین بن جانا‘ تاکہ وہ تمہارے لیے آسمان بن جائے‘ تم اس کے لیے گہوارہ بن جانا تاکہ وہ تمہارے لیے سہارا بن جائے‘ اگر تم اس کی باندی بن گئیں تو و ہ تمہارا غلام بن جائے گا۔ اس سے ضد اور زبردستی نہ کرنا ورنہ وہ تم سے نفرت کرنے لگے گا۔ اس سے دور مت رہنا ‘ ورنہ وہ تم کو بھلا دے گا‘ اگر وہ تمہارے نزدیک آئے تو تم اس سے اور نزدیک ہو جانا۔ تم اس کی ناک ‘ کان اور آنکھ کا خیال رکھنا ‘ یعنی تمہاری غفلت اور بے احتیاطی کی وجہ سے اس کو کسی چیز سے نقصان نہ پہنچے‘ خصوصاً خوشبو کا اہتمام کرنا کہ وہ شوہر کی ناک کے ذریعے اس کے دماغ کو راحت پہنچائے۔
اسی طرح اپنی زبان کا خیال رکھنا کہ تمہارے میٹھے بول اس کے کانوں تک پہنچ کر اس کو راحت اور سکون پہنچائیں۔ اپنی ظاہری حالت اور ہیئت کے اچھے ہونے کا اہتمام رکھنا ‘ تاکہ اس کے لیے تم آنکھوں کی ٹھنڈک اور سرمایۂ راحت بن جاؤ‘ چنانچہ جب وہ تمہیں دیکھے تو اچھی حالت میں نظر آؤ‘ مثلاً بالوں میں کنگھی‘ آنکھوں میںکاجل ‘ سر کے اوپر دوپٹہ اور صاف ستھرا لباس ہوا۔
بس بیٹی! ان باتوںکا اہتمام کرو گی تو تمہارا چھوٹا سا گھر جنت کے مشابہ ہو جائے گا۔