جینے کا ہنر، دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کریں

دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیداکرنے سے آپ کی اپنی زندگی سکون سے گزرتی ہے

’’لگتا ہے کوئی انوکھا بچہ پیدا کر رہی ہے بہو بیگم۔‘‘ رئیسہ جھنجھلائی ہوئی آواز میں شوہر سے مخاطب تھیں۔ واصف جو بہت مگن ہو کر ٹی وی پر ایک سیاسی مباحثہ دیکھ رہے تھے ‘ بیوی پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالی۔
’’خیر تو ہے ‘ اب بے چاری بہو سے کون سا قصور سرزد ہو گیا۔‘‘ ٹی وی کی آواز ذرا سی کم کرتے ہوئے بیوی سے دریافت کیا۔
’’بس آپ کو تو وہ ہی بے چاری لگتی ہے اور میں جو دو گھنٹے سے کچن میں کھپ رہی تھی۔ مجھ بے چاری سے آپ کو کوئی ہمدردی نہیںہے۔‘‘ رئیسہ تنگ آ کر بولی تھی۔
’’ارے بھئی بے چارے ہوں آپ کے دشمن اور کیوں کھپ رہی تھیں آپ دو گھنٹوں سے کچن میں۔ سادہ سے دال ‘ چاول ہی تو بنانے تھے۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے دریافت کیا۔

پہلے برتن دھوئے‘ پھر کچن کی صفائی کی‘ اس کے بعد کھانا بنایا۔ بہو بیگم تو صبح کا ناشتا کر کے جو کمرے میں گھسی تھیں تو اب تک باہر نہیں نکلی ہیں۔
’’تو بہو کی طبیعت بھی تو دیکھو۔ الٹیاں کر کر کے بے حال ہوتی رہتی ہے۔ دھان پان سی تو ہے۔ ڈاکٹر نے بھی مکمل بیڈ ریسٹ بتایا ہے۔ اس کے باوجود وہ کسی نہ کسی کام میںلگی رہتی ہے۔ آج طبیعت زیادہ ناساز ہوگی تو بے چاری آرام کر رہی ہو گی۔‘‘ واصف صاحب نے ثانیہ کی طرف داری کی تھی۔
’’پھر وہی بے چاری‘ میں پوچھتی ہوں واصف صاحب‘ اپنی بہو تو آپ کو دنیا جہان کی مظلوم ترین ہستی لگتی ہے۔ کبھی یہ وقت ہم پر بھی آیا تھا۔ پانچ بچے پیدا کیے میں نے۔ اس وقت میں بھی ایسی ہی دھان پان سی ہوتی تھی۔ آپ کی ماں مجھے کوئی رعایت دینے کو تیار نہ ہوتی تھیں۔

اللہ بخشے آپ کی اماں ایسے ایسے کام میرے ذمے لگا دیتی تھیں جو کوئی عورت نارمل حالت میں کرتے ہوئے بھی ہچکچائے اور میں بلاچوں چرا کیے آپ کی اماں کا ہر حکم بجا لاتی تھی۔ ہمیں توکسی حالت میں کوئی استثنیٰ نہ ملا۔‘‘
’’واہ بیگم واہ دل خوش کر دیا آپ نے روزمرہ گفتگو میں بھی کیسی کیسی تراکیت استعمال کرنے لگی ہیں۔ یہ فائدہ ہوا میرے ساتھ بیٹھ کر ٹاک شوز دیکھنے گا۔‘‘ وہ لطف لیتے ہوئے بولے۔

’’بات کو گھمانے پھرانے میں آپ تو سیاست دانوں کو بھی مات دینے لگے ہیں۔ میرے سوال کا جواب جو نہیں آپ کے پاس۔ہم تو ساری زندگی کولہو کے بیل کی طرح جتے رہے۔ پہلے ساس کی چاکری کی۔ پھر شوہر اور بچوں کی سیوا میںلگے رہے ۔ سوچا تھا کہ بہو آئے گی تو سکھ کا سانس ملے گا لیکن نہ جی‘ اب بہو بیگم کی ناز برداریاں کرنی پڑ رہی ہیں۔‘‘ رئیسہ کا موڈ بری طرح بگڑا ہوا تھا۔ ایسے میں ثانیہ کی حمایت میں کوئی ایک آدھ فقرہ اور بولنے سے نقص امن کا خدشہ تھا‘ سو واصف صاحب نے بیگم کی بڑبڑاہٹوں پر کوئی ردِعمل دینے کی بجائے پھر سے ٹی وی کی طرف توجہ مرکو ز کر لی۔ آخر رئیسہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھ گئی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد واصف صاحب نے بھی ٹی وی بند کر دیا۔ تفکر کی پرچھائیاں ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھیں۔

ان کی شریک حیات نے زندگی بھر خود سے وابستہ ہر رشتہ مثالی انداز میںنبھایا تھا۔ واصف صاحب کا خیال تھا کہ جس لڑکی کو رئیسہ بہت چاہ سے بہو بنا کر لائی ہیں‘ وہ اس کے ساتھ بھی مثالی رویہ اپنائیں گی ۔ لیکن یہاں ان کا اندازہ غلط ثابت ہونے لگا۔
ان کی بہو ثانیہ سلجھی ہوئی عادات کی مالک‘ ہنس مکھ سی لڑکی تھی۔ شادی کے بعد اس نے گھر کی ذمہ داریاں بھی بطریق احسن نبھانا شروع کر دیں۔ ثانیہ اوراسد کی شادی کے بعد شروع شروع میں تو رئیسہ اپنے انتخاب پر خاصی مسرور اور نازاں رہتیں۔
’’ثانیہ نے تو مجھے سویرا کی کمی محسوس ہی نہیںہونے دی واصف صاحب! بہو مجھے کسی کام کو ہاتھ لگانے ہی نہیںدیتی۔‘‘

’’چلیں اسی بات پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ ایک بیٹی گھر سے رخصت ہوئی تو اللہ نے بہو کی صورت میں ہمیں ایک اور بیٹی سے نواز دیا۔‘‘ واصف صاحب مسکرا کر کہتے۔ رئیسہ بھی طمانیت بھرے انداز میں مسکرا دیتیں۔ لیکن آہستہ آہستہ رئیسہ کا اطمینان رخصت ہونے لگا۔

اب انہیں ثانیہ سے بہت سی شکایتیں ہونے لگی تھیں اور جب سے ثانیہ امید سے ہوئی تھی شکایتوں کا تناسب کچھ اور بڑھ گیا تھا۔ طبیعت نڈھال رہنے کی وجہ سے وہ ا ب پہلے کی سی مستعدی سے گھر کے کام نہ نمٹا پاتی تھی۔ کمزوری کی وجہ سے ڈاکٹر نے بھی بیڈ ریسٹ کی تلقین کی تھی۔ اس کا یہ آرام رئیسہ کی آنکھوںمیںکھٹکتا تھا۔
انہیں اپنا وقت یاد آتا جب ان کی ساس انہیں کسی بھی حالت میںکوئی رعایت دینے پر تیار نہ ہوتی تھیں۔ واصف صاحب کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اپنی بھلی مانس بیوی کو اس موازنے کی عادت سے کیسے باز رکھیں۔ اب بھی بیگم کے جانے کے بعد وہ کتنی دیر تک مسئلے کا حل سوچتے رہے۔

اگلی شام کو سویرا چلی آئی۔ لاڈلی بیٹی کی اچانک آمد پر رئیسہ بیگم کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ عموماً ویک اینڈ پراپنے شوہر کے ساتھ آتی تھی۔ آج بنا اطلاع دیے ماں باپ سے ملنے چلی آئی تو ان کی خوشی فطری تھی۔
’’صبح سے ہی آ پ اور ابو بہت یاد آ رہے تھے امی۔ آنٹی نے بھی میری اداسی محسوس کر لی۔ نعمان آج آفس سے جلدی آ گئے تو آنٹی نے ان سے ہی کہا کہ مجھے آپ لوگوں سے ملوانے لے جائیں۔ نعمان کواپنے دوست سے ملنے جانا تھا ‘ وہ مجھے یہاں ڈراپ کر کے چلے گئے ۔‘‘ سویرا نے مسکرا کر ماںکو بتایاتھا۔
’’اچھی بات ہے لیکن نعمان کو فون کر کے کہہ دو کہ رات کا کھاناہمارے ساتھ ہی کھائے۔ یہ نہ ہو کہ وہ اپنے دوست کے ہاں کھانا کھا کر آئے۔‘‘ رئیسہ نے فوراً تاکید کی تھی۔ سویرا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’اور ثانیہ بھابی آپ سنائیں طبیعت کیسی ہے۔ بہت کمزور لگ رہی ہیں۔‘‘ وہ اب بھاوج کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔

’’بس آپ اور میں تو ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔‘‘ سویرا مسکرائی تھی۔ دونوں نند بھاوج کی شادیاں اکٹھی ہوئی تھیں اور دونوں کو خوش خبری بھی تقریباً اکٹھی ہی ملی تھی۔
’’مجھ سے تو خود کچھ نہیں کھایا جا رہا لیکن آنٹی اور نعمان میرے پیچھے پڑ کر مجھے کچھ نہ کچھ کھلاتے پلاتے رہتے ہیں۔آنٹی تو کبھی فروٹ کاٹ کر دیتی ہیں تو کبھی کسی فروٹ کا شیک بنا دیتی ہیں۔ میرے منع کرنے کے باوجود مجھے زبردستی پلا کر ہی دم لیتی ہیں۔‘‘ سویرا نے فراخ دلی سے اپنی ساس کی تعریف کی تھی۔
’’خیریت سے توہیں کلثوم آپ۔ بہت دن ہو گئے ان سے بھی ملاقات ہوئے۔‘‘ رئیسہ نے سمدھن کی خیریت دریافت کی ۔ آنٹی کے گھٹنوں اور کمرے میں بہت درد رہتا ہے امی۔ معدے کی تکلیف کی وجہ سے ’’پین کلرز‘‘ کا زیادہ استعمال بھی نہیںکر سکتیں۔‘‘ سویر ا نے بتایا۔
ہاں بیٹا یہ عمر ہی ایسی ہے۔ درد ہی جان نہیں چھوڑتے۔ رئیسہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔

’’آنٹی ریسٹ بھی تو نہیں کرتیں امی۔ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتی ہیں۔ آج کل تو کچن کی ذمہ داری بھی آنٹی نے ہی اٹھا رکھی ہے۔ مجھے چولہے کے پاس کھڑا ہی نہیں ہونے دیتیں۔ کہتی ہیں کہ پہلے ہی تمہاری طبیعت نڈھال رہتی ہے‘ گرمی سے اور خراب ہو جائے گی۔ میں زیادہ اصرار کروں تو کہتی ہیں کہ بیٹا! اب تو باقی کی عمر تمہارے ہاتھ کا پکا ہی کھانا ہے‘ یہ ذرا سا عرصہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق احتیاط سے گزار لو۔
آنٹی کہتی ہیں کہ انکی ساس اورنندوں نے انہیںجوانی میں بہت ٹف ٹائم دیا تھا۔ کسی بھی حالت میں انہیں کوئی رعایت نہ دیتی تھیں‘ آنٹی نے یہ سوچ رکھا ہے کہ وہ اپنی ساس جیسی ساس ثابت نہیںہوں گی بلکہ اپنی بہو کو بھی بیٹی بنا کر رکھیں گی۔ ‘‘ سویرا نے محبت بھرے انداز میں ساس کا تذکرہ کیا۔ رئیسہ کچھ چپ سی ہو گئیں۔ ذرا دیر بعد گفتگو کا سلسلہ کسی اور طرف مڑ گیا تھا۔

’’پھر رات کے کھانے میں کیا بناؤں امی۔ دوپہر والا آلو قیمہ تو رکھا ہے۔ چکن کڑاہی اور پلاؤ بنا لیتی ہوں‘ کیوں سویرا؟‘‘ ثانیہ نے گھڑی پر نگاہ ڈالی تو تیزی سے گزرتے وقت کا احساس ہوا۔ ساس کو مخاطب کرنے کے ساتھ ہی سویرا سے بھی رائے چاہی۔
’’چکن کڑاہی رہنے دیں بھابی‘ صرف چکن پلاؤ بنا لیں۔ ‘‘ سویرا نے تجویزدی۔
’’ثانیہ بیٹا تم صرف چکن کا پیکٹ فریزر سے نکال دو۔ کھانا میں خود بناؤں گی ‘ صبح سے تم الٹیاں کر کے بے حال پڑی ہو‘ اب کہاں چولہے کے آگے کھڑی ہو گی۔‘‘ رئیسہ نے نرمی سے بہو کو مخاطب کیا۔ ثانیہ نے ممنون نگاہ ساس پر ڈالتے ہوئے ’’جی امی‘‘ کہا تھا۔ سویرا کے ہونٹوں پر مدہم سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ سسرال واپس جانے سے پہلے وہ موقع پا کر باپ کے قریب آئی تھی۔

’’دوبارہ جب بھی ضرورت محسوس ہو تو ابا مجھے کال کر لیجئے گا۔ آج کا مشن تو کامیابی سے ہمکنار ہو گیا ہے۔‘‘ اس نے باپ کے کان میں سرگوشی کی۔ واصف صاحب نے محبت بھرے انداز میں بیٹی کو مسکرا کر دیکھا۔ سب کی موجودگی میں تفصیلی بات ممکن نہ تھی لیکن سویرا نے مشن کی کامیابی کا مُژدہ سنا کر انہیں پر سکون کر دیا تھا۔ کل بہت دیر تک سوچ بچار کرنے کے بعد انہیں یہی طریقہ سمجھ میں آیا تھا اور انہوں نے سویرا کو فون کر کے مدد چاہی تھی۔

سمجھ دار بیٹی اپنے میکے کے پرسکون ماحول کی خاطر فوراً باپ کی مدد کو تیار ہو گئی تھی۔ آج کی آمد اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ماں کے سامنے اپنی ساس کی تعریفوں کے جو پل باندھے تھے اس میں کسی قدر مبالغہ بھی تھا۔ آنٹی اچھی تھیں لیکن اتنی اچھی نہیں تھیں جتنا سویرا نے انہیں بنا کر پیش کیاتھا ۔ہاں اس کی خواہش تھی کہ اس کی ماں بہت اچھی ساس بنے ۔ کیوں کہ ثانیہ فطرت کے اعتبار سے اچھی لڑکی تھی۔

سویرا کو یقین تھا کہ وہ ساس کے اچھے برتاؤ کو حق سمجھ کر وصول کرنے والی لڑکی نہیں ہے ۔ اس اچھے برتاؤ کو نہ صرف یاد رکھے گی بلکہ بدلے میں ان کی عزت کے ساتھ ساتھ خدمت بھی کرے گی۔ اپنی ماں سے بے تحاشا محبت کرنے والی سویرا کو کب گوارا تھا کہ کسی اور کے دل میں اس کی ماں سے متعلق منفی خیال جنم لیں۔

سویرا اپنی آئیڈیل ماں کو آئیڈیل ساس کے روپ میں دیکھنے کی متمنی تھی۔ چاہے اس کے لیے اسے اپنی ماں کے سامنے اپنی ساس کی جھوٹی تعریفیں ہی کیوں نہ کرنی پڑیں۔ اس سارے قصے میں اس کا ذاتی نقصان صرف یہ ہوا تھا کہ اب وہ اپنی ماں کے سامنے سسرال کی دل دکھا دینے والی باتیں بتا کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا نہ کر سکتی تھی۔ ہاں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اس کے پیارے ابا جو موجود تھے۔ جن کا ایمان تھا کہ دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیداکرنے سے آپ کی اپنی زندگی سکون سے گزرتی ہے۔ جینے کا یہ ڈھنگ ثانیہ نے ابا سے ہی سیکھا اور وہ اسی پر عمل پیرا بھی تھی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button