پاکستانی خواتین تولیدی صحت کی سہولیات سے محروم

28 فروری کو اسلام آباد میں منعقدہ پاپولیشن کونسل پاکستان کی میڈیا کولیشن میٹنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں 15 سے 19 سال کی نوجوان شادی شدہ خواتین کی تولیدی صحت کی ضروریات پوری نہ ہونے اور مانع حمل طریقوں کی عدم دستیابی کے باعث سالانہ اس عمر کی تین لاکھ ستانوے ہزار خواتین حاملہ ہوتی ہیں جس میں ایک لاکھ چھبیس ہزار ماؤں کی ڈلیوری کسی طبی مرکز صحت یا ہسپتال میں نہیں ہوتی۔

پاکستان میں نوجوان ماؤں میں دوران زچگی اموات کی دوسری بڑی وجہ اسقاط حمل ہے اور اس عمر میں ہونے والے 36 فیصد حمل غیر ارادی ہوتے ہیں جن میں سے 58 فیصد کا اختتام اسقاط حمل پر ہوتا ہے۔ یو این ایف پی اے کے تعاون سے پاپولیشن کونسل پاکستان کے زیر اہتمام عالمی یوم خواتین کے تناظر میں میڈیا کولیشن میٹنگ کا انعقاد ہوا جس میں ملک بھر سے شریک میڈیا کے نمائندوں کو خواتین کی تولیدی صحت سے متعلق درپیش مسائل خصوصاً پاکستان میں نوجوان خواتین کی تولیدی صحت کی ضروریات سے متعلق بریفنگ دی گئی۔

پاکستان میں نوجوانوں کے تولیدی صحت کی خدمات میں کمی اور مانع حمل طریقوں کی رسائی میں کمی کے نتیجے میں بچے کی پیدائش میں کم وقفہ ، زچگی و حمل کی پیچیدگیاں ، اور دوران زچگی اموات اور معذوری جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے میٹنگ کے دوران پاکستان کا موازنہ دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ کیا گیا اور میڈیا کی ذمہ داریوں سے متعلق تبادلہ بھی خیال کیا گیا۔

میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پاپولیشن کونسل کے سنیئر ڈائریکٹر ڈاکٹر علی میر نے کہا کہ نوجوان شادی شدہ خواتین کو تولیدی صحت کے بارے میں درست، قابل بھروسہ اور قابل اعتماد معلومات کی فراہمی ضروری ہے اور اس ضمن میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی خدمات کو بروئے کار لاکر خاطر خواہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

نوجوان ماؤں اور ان کے خاندانوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لئے تولیدی صحت کی سہولیات کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس ضمن میں جامع اور کثیر الجہتی قومی حکمت عملی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد اشد ضروری ہے۔

اجلاس میں پاپولیشن کونسل پاکستان کے سینئر کمیونیکیشن افسر اکرام الاحد نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان میں مانع حمل طریقوں کی فراہمی کو پورا کرنےسے نوجوان ماؤں میں غیر اِرادی حمل کے کیسز میں 72 فیصد ، دوران زچگی اموات میں 76 فیصد اوراسقاط حمل میں 72 فیصد سالانہ تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

اجلاس میں ایس او جی پی راولپنڈی کی ایگزیکٹو ممبر اور ماہر تولیدی صحت ڈاکٹر نائلہ اسرار نے بتایا کہ کم عمری کی شادی سے دوران حمل پیچیدگی اورزچگی کے دوران اموات کی علاوہ ماں اور بچے میں غذائیت کی کمی اور اسقاط حمل جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدید مانع حمل ادویات کا استعمال جان بچانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اس سلسلے میں آگاہی میں اضافے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرے تاکہ نوجوان خواتین کی قیمتی جانوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ حمل و زچگی ، اسقاطِ حمل اور غذائیت کی کمی پر آنے والے طبی اخراجات کی بچت بھی کی جا سکے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button