میراث سے محروم کرنا: جنت سے محرومی کا باعث
قرآن مجید میں عام طور پر مضامین کو اختصار اور جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے، اس اختصار اور جامعیت میں جہاں کوئی مسئلہ تفصیل طلب ہو تو اس کی تفصیل احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کی گئی ہے۔ تاہم وراثت وہ واحد مسئلہ ہے کہ جس کی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید میں نہ صرف اس کی تقسیم کا حکم دیا گیا بلکہ تقسیم کا طریقہ کار، ورثا کی تعیین اور ان کے مقررہ حصے بھی بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔
سورۃ النساء کے دوسرے رکوع میں اس مسئلہ کی جزئیات تک بیان کی گئی ہیں، نیز اس موضوع سے متعلقہ کچھ مسائل اسی سورت کے آخری رکوع میں بھی بیان کیے گئے۔ہمارے ہاں کے اسلامی معاشرہ کہلانے والے معاشرے میں جہاں دیگر کئی معاملات میں اجتماعی طور پر سستی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، قرآن سنت پر عمل کے حوالے سے کوتائی برتی جاتی ہے اور اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی گئی واضح ہدایات سے روگردانی کی جاتی ہے، ان میں سے ایک اہم فریضہ شرعی بنیادوں پر وراثت کی تقسیم ہے۔
یہاں اس موضوع سے متعلقہ مسائل بیان کرنا مقصود نہیں، اس مقصد کے لیے کتب فقہ یا علمائے کرام کی طرف رجوع کیا جائے، بلکہ اس تحریر کے ذریعے اس مسئلہ کی ضرورت و اہمیت اجاگر کرنا نیز ہمارے ہاں اس سلسلے میں پائی جانے والی کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا مقصود ہے، خاص طور پر لاعلمی یا لاپروائی کی وجہ سے خواتین کو جس طرح وراثت کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے، اس کی اصلاح کرنا مقصود ہے۔چنانچہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 7 اور 11 میں اللہ تعالی نے نہایت وضاحت اور صراحت کے ساتھ یہ تاکیدی حکم بیان کردیا ہے کہ جس طرح بیٹے اپنے والدین کی وراثت کے حقدار ہیں، اسی طرح بیٹیاں بھی بہ قدرِ حصہ وارث ہیں یا جس طرح بھائی وراثت کے حقدار ہیں اسی طرح بہنیں بھی وراثت کی حق دار ہیں۔
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بیٹیوں یا بہنوں کے ساتھ ان کی شادیوں کے موقع پر جہیز کے عنوان سے خاطر خواہ تعاون کیا جاتا ہے بلکہ ایسے مواقع پر بسا اوقات قرض ادھار لینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا، یوں بیٹیوں یا بہنوں کو لاکھوں کے جہیز کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے۔ لہذا اب وہ وراثت کی حق دار نہیں ہیں، اس طرح بیٹیاں اور بہنیں وراثت سے محروم کردی جاتی ہیں۔اس سلسلے میں دو گزارشات پیش خدمت ہیں۔
پہلی یہ کہ جہیز دینے میں قباحت نہیں، بلکہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت ملتا ہے، لیکن اتنا ہی جس کے استعمال کی عام طور پر روز مرہ زندگی میں ضرورت ہے۔ "داشتہ آید بہ کار” کے تحت ضرورت سے زائد جہیز دینے کی شریعت نے نہ صرف حوصلہ شکنی کی ہے بلکہ مذمت اور ممانعت بھی کی ہے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ جہیز اگر بقدر ضرورت دیا جائے یا ضرورت سے زائد، ہر دو صورتوں میں نہ تو وہ اللہ کی طرف سے عائد کردہ کوئی فریضہ ہے اور نہ ہی وہ کسی بھی طرح وراثت کا متبادل ہے۔ جب کہ وراثت تو ایک شرعی فریضہ ہے، جس کی ادائیگی بہر حال ضروری ہے اور یہ خلاف انصاف ہے کہ ایک مباح کام کی آڑ لے کر ایک شرعی فریضہ کو چھوڑ دیا جائے، کہ جس کے نتیجے میں خواتین اپنے حق وراثت سے ہی محروم ہوجائیں۔ لہذا اس غلط فہمی کو دور کردینا چاہیے کہ بیٹیاں یا بہنیں جہیز ملنے کے بعد وراثت کی حقدار نہیں بلکہ وہ بدستور وراثت کی حقدار ہیں۔
اس سلسلے میں ایک اور غلط فہمی بھی ہمارے ہاں پائی جاتی ہے کہ بہنیں اور بیٹیاں شادی کے بعد دوسرے گھر منتقل ہو جاتی ہیں، ایسے میں اگر ان کو وراثت کا حصہ دیا جائے گا تو وہ بہن یا بیٹی کی وساطت سے بہنوئی یا داماد کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ اس طرح انہیں وراثت میں ملنے والے اثاثے ہماری ملکیت اور قبضے سے نکل کر دوسروں کی ملکیت اور قبضے میں چلے جائیں گے اور یوں اس مال و جائیداد سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھائیں گے۔
یہ خیال بھی لاعلمی یا غلط فہمی پر مبنی ہے، کیونکہ جس طرح آپ کی بہن یا بیٹی آپ سے وراثت میں اپنا حصہ وصول کرے گی، اسی طرح آپ کی بیوی یا والدہ (جو کسی کی بہن یا بیٹی ہے) کو ان کے والدین کی طرف سے وراثت میں حصہ ملے گا، جس سے آپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔بعض دیہاتوں اور گاؤں میں یہ رواج دیکھنے میں آیا ہے کہ بہنوں بیٹیوں کو عیدین خصوصاً عید الفطر کے موقع پر عیدی کے نام سے مختلف چیزوں پر مشتمل ایک تحفہ یا نقدی دے دی جاتی ہے اور اس کو بھی وراثت کا متبادل سمجھا جاتا ہے، بہنیں بیٹیاں شرم و حیا کے مارے وراثت کا مطالبہ ہی نہیں کر سکتیں، اس طرح وہ ساری زندگی وراثت سے محروم رہ کر گزار دیتی ہیں، جو کہ یقیناً ان کی حق تلفی ہے۔
اسی طرح ایک اور غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وراثت کا تعلق صرف جائیداد اور زمین سے ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مورث (مرنے والے) کی ملکیت میں مرنے کے وقت جو اثاثے تھے، خواہ نقدی ہو یا جائیداد، بینک میں جمع شدہ رقم ہو یا کسی کے پاس امانت اور قرض، سب میں وراثت تقسیم ہوگی۔اسی طرح ایک اور غلطی کی اصلاح بھی ضروری ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی وفات سے پہلے اپنے اثاثے اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کے مابین مساوات کا لحاظ رکھ کر تقسیم کرے گا، اس صورت میں جتنا حصہ ایک بیٹے کو ملے گا، اتنا ہی ایک بیٹی کو بھی ملے گا۔ کیونکہ شریعت کی رو سے مرنے سے پہلے اثاثوں کی تقسیم وراثت کی تقسیم تصور نہیں کی جائے گی، بلکہ ہبہ اور تحفہ تصور ہوگا اور اس حوالے سے شرعی اصول یہ ہے کہ ہبے اور تحفے کی صورت میں بیٹے اور بیٹی کے حصے میں کوئی فرق نہیں، بلکہ مساوات ہے۔
لہذا جو لوگ مختلف حیلوں بہانوں سے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت کے حق سے محروم کرتے ہیں، انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ وعید ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جس شخص نے میراث میں سے کسی وارث کا حصہ کاٹا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کا حصہ کاٹ دیں گے۔” (مشکٰوۃ: 926)