فقر، مفلسی اور مستقبل کی فکر میں مبتلا نہ ہوں
ایک شخص نظرِ بد سے ڈرتا ہے پھر واقعی اسے نظرِبد لگ جاتی ہے‘ ایک شخص ناکامی سے خوف کھاتا ہے اور وہ واقعی ناکام ہو جاتا ہے‘ ایک عورت کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اس کا بچہ بیمار ہو جائے گا اور وہ واقعی بیمار ہو جاتا ہے، ایک شخص فقر و محتاجی سے ڈرتا ہے اور وہ پھر وہ واقعی تنگ دست و محتاج ہو جاتا ہے، یہ سب کیسے ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ’’انا عند ظن عندی بی‘‘ میں اپنے بندے کے ظن (گمان) پر پورا اترتا ہوں۔
غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں اپنے بندے کے حسن ظن پر پورا اترتا ہوں بلکہ خالی ظن فرمایا ۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ جب آدمی گمان کرتا ہے کہ اس کی زندگی خوشحال ہو گی ‘ رزق میں کشادگی ہو گی‘ مال‘ اولاد میں برکت ہو گی تو اللہ تعالیٰ پر حسن ظن رکھتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کی نیت کے مطابق اسے عطا کرتا ہے ۔ مگر جب آدمی ہر وقت خوف میں رہتا ہے ‘ اسے فقر و مفلسی یا بیماری کا خوف لگا رہتا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ سے بدظن ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی اسے اس کی نیت کے مطابق عطا کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے، ترجمہ:’’اور ان منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے گا جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں برے گمان رکھتے ہیں۔‘‘
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بھلائی کا اختیار اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ سلف صالحین میں سے کسی نے کہا:’’مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی الہ نہیں‘ بندے کو اللہ تعالیٰ پر حسن ظن سے بہتر کوئی چیز عطا نہیں ہوئی کیونکہ بندہ اللہ تعالیٰ پر حسن ظن رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حسن ظن پر ضرور بضرور پورا اترتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی جس نے بھی اللہ تعالیٰ پر حسن ظن رکھا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے حسن ظن پر پورا اترے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین آسمان کے تمام خزانے اور سارے کا سار ا فضل اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ سورہ ہجر کی آیت نمبر 21پریشان حال لوگوں کو نئی امیددیتی ہے۔ فرمایا گیا، ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔جب ہر چیز کے خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں تو مستقبل کی فکر کیوں کی جائے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم عام طور پر ایسی باتوں میں پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ جن کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ مثال کے طور پر روزی روٹی کی فکر میں ہر شخص پریشان دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح اپنے بچوں کی کفالت کے حوالے سے بھی تذبذب کا شکار ہوتا ہے حالانکہ روئے زمین پر جتنے بھی جاندار آباد ہیں ان کی روزی کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔ حدیث مبارک میں آیا ہے کہ ہر ایک انسان کے مقدر میں جو رزق لکھ دیا گیا ہے جب تک انسان اپنے مقدر کا رزق کھا نہیں لے گا اسے موت نہیں آئے گی۔ اسی طرح ایک اور حدیث مبارک میں فرمایا کہ جس طرح سے انسان کو موت تلاش کرتی ہے اسی طرح سے اسے رزق بھی تلاش کرتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ بلاوجہ اپنے آپ کو اس فکر میں رکھ کر پریشان نہ کریں کہ ہماری روزی کا انتظام کیسے ہوگا ۔ ہمیں تو بس یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق محنت کریں اور پھر اس محنت کے بعد جو روزی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ کم ہے یا زیادہ۔
آج چونکہ مادہ پرستی کا دور ہے اس لیے ہر کوئی اپنے اثاثے بڑھانے کی بات کرتا ہے‘ اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے اثاثوں کی بھی فکر ہے۔ اس مادہ پرستی کے اثرات عام آدمی کی زندگی پر بھی پڑ رہے ہیں۔ اسے بھی شیطان بہکانے کی کوشش کرتا ہے‘ اس کے ذہن میں طرح طرح کی بدگمانیاں آتی ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ بندے کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھے کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی بندے کے گمان کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔