خود کو بڑا سمجھنے کی مرض میں مبتلا لوگ
ہر انسان میں جس طرح خوبیاں پائی جاتی ہیں، اسی طرح کچھ خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان خامیوں میں ایک بڑی خامی فخر، تکبر اور غرور ہے۔ تکبر ایک ایسی برائی ہے جو معاشرتی عدم مساوات اور سماجی ناہمواری کو جنم دیتی ہے۔ یوں یہ ایک برائی بہت سی خرابیوں کا مجموعہ ہے۔ تکبر کسے کہتے ہیں؟ تکبر کیوں پیدا ہوتا ہے؟ اس بیماری کے دنیاوی و اخروی نقصانات کیا ہیں؟ اور تکبر کا علاج کیا ہے؟ ذیل میں ان سارے سوالوں کے جوابات دیے جاتے ہیں۔
تکبر کیا ہے؟
اس حوالے سے مفسرین، محدثین اور علمائے کرام نے بڑی تفصیل لکھی ہے، تاہم عام فہم الفاظ میں معاشرے میں خود کو سب سے اعلیٰ و اہم سمجھنا، دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا اور خود پسندی کو تکبر کہتے ہیں۔
وجوہات
تکبر پیدا ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1) امرا کے ہاں پذیرائی، حکام سے اچھے تعلقات اور افسران بالا تک رسائی بھی اکثر و بیشتر انسانوں میں تکبر پیدا کرتی ہے۔
2) قابل رشک جوانی، ظاہری حسن و جمال اور صحت و تندرستی یقینا اللہ کی نوازش ہے، مگر کچھ لوگ ان چیزوں کی وجہ سے بھی تکبر کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
3) اس میں کوئی شک نہیں کہ کامیاب کاروبار، مال و دولت کی فراوانی اور کثرت اولاد بھی اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں، کچھ لوگ ان خداداد نعمتوں کو اپنا ذاتی کمال سمجھ کر تکبر کے عارضے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
4) بعض لوگ اپنی خاندانی وجاہت، حسب نسب اور قوم قبیلے کی وجہ سے تکبر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالی نے قوم اور قبیلے صرف اور صرف شناخت کے لئے پیدا کئے ہیں، نہ کہ انسانوں میں مقام اور مرتبہ کے امتیاز کو نمایاں کرنے کے لیے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے اور ہم نے تمہارے قبیلے اور قومیں بنائیں، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، اللہ کے نزدیک عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ تقوی والا ہے۔ (الحجرات:13)
5) اسی طرح کچھ لوگ بااثر عہدے اور اعلیٰ منصب کی وجہ سے تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں۔
وبال
تکبر کے دنیا و آخرت میں بہت زیادہ نقصانات ہیں، اس سلسلے میں قرآن و حدیث میں بہت ساری روایتیں بیان کی گئی ہیں، جن میں سے چند کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا اعلان ہے، "بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو گھمنڈ کرنے اور فخر کرنے والا ہو۔” (النسائ :36)
مزید فرمایا: "اللہ تعالی جانتا ہے جو کچھ لوگ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، بے شک وہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔” (النحل:23)
تکبر کرنے والوں کے بارے میں ذیل کی وعید ملاحظہ کیجئے، کہ اس ایک وعید میں کتنی سزاو¿ں کا ذکر ہے۔ عمر بن شعیب اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن جمع کیا جائے گا، چیونٹیوں جتنے ہوں گے، جن کی شکل و صورت آدمیوں جیسی ہو گی، ان پر ہر طرف سے ذلت چھائی ہو گی، ان کو جہنم میں قید کی طرف ہانکا جائے گا، جس کا نام "بولس” ہے، ان پر سخت ترین آگ کا غلبہ ہو گا، ان کو دوزخیوں کی پیپ پلائی جائے گی، جس کا نام "طینتہ الخبال” ہے۔” (ترمذی:2492)
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک دوسری مشہور حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جس کے دل میں ذرا برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔” (مسلم:147)
اسی مضمون کی حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا اللہ تعالی اسے اوندھے منہ جہنم میں گرائے گا۔” (مسند احمد:7015)
علاج
تکبر کے علاج کے متعدد طریقے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق سوچ و فکر کے ساتھ ہے، جن کا تذکرہ ذیل کی سطور میں کیا جاتا ہے۔
1) ہر انسان یہ خیال رکھے کہ میرے اندر جو کچھ بھی کمالات ہیں، ان کے حصول میں میرا ذاتی کوئی عمل دخل نہیں، بلکہ عطائی یعنی اللہ تعالی کی عطا ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آتا ہے، "تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں، سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں۔” (النحل:53)
2) انسان کی یہ سوچ ہونی چاہیے کہ میں کسی ذاتی اہلیت کی بنا پر ان نعمتوں کا مستحق نہیں تھا، کتنے ہی اور لوگ ہیں جن کے پاس یہ اہلیت تو موجود ہے مگر یہ نعمت نہیں۔ اللہ تعالی نے مجھے یہ کمال عطا کرکے اپنی رحمت سے نوازا ہے۔
3) یہ خیال بھی رکھنا چاہیے کہ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے یہ کمال عطا کرکے واپس لے لیا، اسی طرح اس کمال کو میرے پاس بھی باقی رکھنے کا اختیار اللہ کے پاس ہے، اللہ چاہے تو یہ کمال مجھ سے بھی واپس لے سکتا ہے۔
4) یہ سوچ بھی ہونی چاہیے کہ اس وقت دوسروں کے پاس یہ نعمت اور کمال نہیں، لیکن ممکن ہے اللہ تعالی اس کو یہ کمال اور نعمت مستقبل قریب اور بعید میں عطا کر دے بلکہ اس سے بھی بہتر درجے میں عطا کر دے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دوسروں میں کچھ ایسے کمالات ہوں جن تک میری نگاہ نہ پہنچ سکی ہو۔
5) تکبر کا ایک بہترین علاج یہ بھی ہے کہ انسان جس شخص کو حقیر سمجھے، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رکھے، کھانا پینا کرے، گفتگو کرے، اس کا احترام کرے، اس کے بارے میں تعریفی و توصیفی کلمات کہے اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔