جس کے نصیب میں رب ہدایت لکھ دے
جہلم کا سب سے بڑا قبرستان کسی پیدائشی مسلمان نے وقف نہیں کیا تھا۔ لیکن وقف کرنے والے کی زندگی کا خاتمہ مسلمان ہونے پر ہوا تھا۔محسنِ جہلم ٹنڈل رام پرشاد کا نام کم ہی افراد نے سنا ہو گا۔یہ واقعہ 1933کا واقعہ ہے۔ ٹنڈل رام پرشاد نواب آف دکن کی تقریبا پونے دو مربع زمین جہلم میں موجود تھی لیکن انکی زیادہ تر اراضی دکن بھارت میں موجود تھی۔ ان کی ایک رہائش جو کہ اس زمانے میں بہت عالیشان رہائش گاہ، باغ محلہ نزد صرافہ بازار جہلم میں برلبِ دریائے جہلم اب بھی موجود ہے۔
نواب آف دکن ٹنڈم رام پرشاد ایک انتہائی رحم دل اور درویش صفت انسان تھے۔ وہ انتہائی امیر کبیر اور نواب خاندان کے اکلوتے وارث تھے جو کہ سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے۔نواب آف دکن اکثر اوقات اپنی اراضی دیکھنے دکن سے جہلم تشریف لاتے اور ان دنوں بھی وہ جہلم ڈھوک عبداللہ کے نزدیک اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے کہ کچھ لوگ ایک عورت کا جنازہ لئے ان کے پاس سے گزرے۔ نواب آف دکن سمجھے کہ شاید یہ کوئی بیمار آدمی ہے اور اسے کسی حکیم کے پاس لے کر جا رھے ہیں۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ باغ محلہ کے افراد طرح جنازہ لیکر واپس آ گئے۔ نواب ٹنڈل رام پرشاد بھی اسی راستہ پر کھڑے اپنی سواری کا انتظار کر رہے تھے ۔ازراہ ہمدردی انہوں نے ان افراد میں سے کسی سے پوچھاکہ اب اس مریض کا کیا حال ہے ؟مرحومہ کے ایک بچے نے رو رو کے ساری داستان سنائی کہ ان کے دو تین جاننے والوں نے اپنی زمین میں اسکی والدہ کی قبر بنانے سے صاف انکار کر دیا ہے اور اب اس عورت کی قبر اپنے گھر بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ نواب صاحب یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوئے۔اور بیشک اللہ کی رضا و مرضی کے بغیر نہ کوئی نیکی کر سکتا ہے اور نہ ہی برائی۔
چنانچہ اللہ پاک نے ٹنڈل رام پرشاد کے دل میں اس مرحومہ کے لئے رحم ڈالا اور نواب صاحب نے مرحومہ کے بچوں کو پاس بلایا اور یکدم حیرت انگیز پیشکش کر دی کہ اگر آپکے مسلمان بھائیوں نے میت دفنانے سے انکار کیا ہے تو آپ پریشان نہ ہوں، یہ زمین یہ جائیداد ادھرہی رہ جانی ہے۔ البتہ ہم سب انسانوں نے جلد یا بدیر دنیا سے چلے جانا ہے، آپ لوگ میری اس زمین پر جس جگہ چاہتے ہیں اپنی والدہ کو دفن کر دیں اور آج سے میں اپنی یہ پونے دو مربع زمین مسلمانوں کے قبرستان کیلئے وقف کرتا ہوں۔ یہ بات سنتے ہی سب مسلمانوں کی آنکھوں میں تشکر سے آنسو آ گئے اور مرحومہ کو دفنانے کے بعد فاتحہ خوانی کی گئی اور ٹنڈل رام پرشاد کے لئے بھی خصوصی طور پر بہت سی دعائیں مانگی گئیں۔
یہ دعا بارگاہ الٰہی میں جلد ہی قبول کر لی گئی اور چند روز بعد ہی ٹنڈل رام پرشاد نے ایک ولی کامل سید بخاری شاہ صاحب کے ہاتھوں اس شرط پر اسلام قبول کیا کہ میں اپنا نام تبدیل نہیں کروں گا۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے ٹنڈل رام پرشاد کے لئے رشدو ہدایت کے دروازے کھول دیئے اور نواب صاحب اسلام قبول کرنے کے کچھ عرصہ کے بعد دکن تشریف لے گئے اور اپنے وکیل کو وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد مجھے جہلم کے قبرستان میں دفنایا جائے۔چنانچہ چند سال بعد یعنی قیام پاکستان سے 5 سال قبل 1942 کو جہلم اور پاکستان کے مسلمانوں کے محسن اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور ان کی میت دکن سے ان کی ذاتی گاڑی میں جہلم لائی گئی اور جہلم میں بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں نے جنازہ میں شرکت کی اور جہلم کے اس عظیم قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ۔آج بھی جہلم کے باسی اس عظیم ٹنڈل رام پرشاد کی محبتوں اور احسان کے قرضدار ہیں۔