کیا آپ بھی اپنی قیمت سے ناواقف ہیں؟
ترقی کا تعلق دو چیزوں سے ہے۔ رسک اور سٹیپ اٹھانا۔ جو لوگ زندگی میں سٹیپ اٹھانے یا رسک لینے کی کوشش نہیں کرتے ہیں وہ ترقی سے دور رہتے ہیں۔ اکثر لوگ اس خوف سے سٹیپ نہیں اٹھاتے کہ چند ماہ کی بے روزگاری کیسے کاٹیں گے؟ یہ کمزوری سرمایہ کاروں کو ورکرز کے استحصال کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس کمزوری کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد اپنے حقوق کی آواز بلند نہیں کرتے کہ کہیں صاحب ناراض نہ ہو جائے۔ ایسے افراد کو زندگی کے ہر موڑ پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے، عزت نفس کو داؤ پر لگانا پڑتا ہے، بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر اظہار کرنے سے ہمیشہ قاصر رہتے ہیں کیونکہ صاحب ناراض ہو گیا تو نوکری چلی جائے گی۔
ایسے افراد کچھ نیا سیکھنے سے بھی محروم رہتے ہیں کیونکہ جس سسٹم کا وہ حصہ بن چکے ہوتے ہیں وہ انہیں اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ان کے پاس وقت بچتا ہے۔ اگر آپ ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں، زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور رسک لینے کی ہمت نہیں ہو پا رہی ہے تو منصوبہ بندی کریں، بیک اپ تیار کریں، تھوڑی بچت کر کے تین سے چار ماہ کیلئے اتنی رقم جمع کریں جس سے آپ کے گھر کا نظام چل سکے۔ یہ منصوبہ بندی سٹیپ اٹھانے اور رسک لینے میں معاون ثآبت ہو گی، آپ کے اندر کی بزدلی ختم ہو گی۔ جس دن آپ اپنے اندر کی بزدلی کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کتنے قیمتی ہیں۔
ایک مزدور سے سیکھیں جو تعلیم اور ہنر نہ ہونے کے باوجود اپنی قیمت نہیں گراتا ہے، ہر سال مزدور کی اجرت میں کیوں اضافہ کرنا پڑتا ہے؟ اس لئے کہ کم اُجرت پر مزدور کام کرنے پر تیار نہیں ہوتے ہیں۔ مزدور میں یہ ہمت ہے کہ وہ اپنی شرائط پر کام کرے مگر پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد میں یہ ہمت نہیں ہے۔ چین نے سستی لیبر کے باعث دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا، ایپل سمیت کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چین میں اپنا سیٹ اپ لگایا، چین نے چند برس تک سستی لیبر فراہم کی مگر اب چین کے ہنر مند افراد کم معاوضے پر اپنی خدمات فراہم کرنے کیلئے دستیاب نہیں ہیں، چین نے پہلے مرحلے میں دنیا تو سستی لیبر کا جھانسہ دے کر اپنی طرف متوجہ کیا، دوسرے مرحلے میں ہنرمندی ثابت کیا اور تیسرے مرحلے پر انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ چین کے ماہرین کم اجرت پر دستیاب نہیں ہیں۔
اگر آپ بھی کوئی ہنر جانتے ہیں تو سب سے پہلے اپنا حلقہ بنائیں، ابتدائی خدمات کی بھاری قیمت وصول نہ کریں، جب آپ کو تسلی ہو جائے کہ آپ کی خدمات کو سراہا جا رہا ہے تو اپنی مرضی کی قیمت وصول کریں۔ طارق عزیز مرحوم پاکستان کے مایہ ناز ٹی وی میزبان اور نقیب محفل تھے،2011 ء میں ایک انٹرویو کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے کتنا زیادہ سے زیادہ کتنا معاوضہ لیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ایک گھنٹے کا 10 لاکھ روپے وصول کیا اور جتنے منت اوپر ہو گئے اس کے اضافی چارج کئے، یہ بتاتے ہوئے انہوں نے بہت عمدہ جملہ کہا کہ پیار میں لے جا کر ذبح بھی کر لیں تو کچھ نہ بولیں گے لیکن پروفیشنلی طور پر بات کی جائے گی تو اپنا مفاد مقدم رکھ کر بات کروں گا۔
سرمایہ کار اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کرتا ہے تو ورکر اپنے مفاد کو سامنے کیوں نہیں رکھتا؟ آپ عظیم ہیں لیکن ایسا ہیرہ ہیں جو ابھی تک اپنی قیمت سے واقف نہیں ہے، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بھولا بسرا جوہری آپ کے پاس آئے اور آپ کی قیمت لگائے، یہ زمانے لد چکے، موجودہ زمانے میں آپ نے خود اپنے ہیرے کی مارکٹنگ کرنی ہے اور جہاں سے زیادہ دام ملیں وہاں فروخت کرنے میں دیر نہیں کرنی ہے، سو خود کوکبھی بھی کم قیمت نہ سمجھیں۔ یہ سوچ آپ کو آگے بڑھنے میں معاون ثابت ہو گی۔