بالاکوٹ کا نابینا ہندکو گلوکار حافظ اسد
انسان کی یہ فطرت ہے کہ اُس کی نظر اپنی زندگی میں موجود کمیوں اور رب تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر کم ہوتی ہے۔ جب کبھی کسی محفل میں گفتگو ہوتی ہے تو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی کمیوں کا رونا رویا جاتا ہے۔ لیکن جب انسان اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا اور غور کرتا ہے تو اُس پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ وہ لاکھوں انسانوں سے بہتر زندگی گزار رہا ہے۔ معاشرے میں ہزاروں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی جسمانی معذوری کا شکار اور آزمائش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔
تاہم معذوری کا شکار ان افراد میں سے بعض اپنی اس جسمانی عیب کو اپنی عمر بھر کی کمزوری نہیں بنا لیتے اور معذوری کے باوجود محنت اور کوشش جاری رکھتے ہیں اور ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ وہ خود کو دیگر افراد سے زیادہ صلاحیتوں کا حامل ثابت کر کے دکھاتا ہے۔ اس کی ایک بہترین مثال بالاکوٹ کے نابینا ہندکو گلوکار حافظ اسد ہیں۔
بالاکوٹ کے نواحی علاقہ مانگی سے تعلق رکھنے والے حافظ اسد کے والد ایس آر ایس پی میں ڈرائیور تھے۔ اُن کا ایک اور بھائی اور بہن بھی نابینا ہیں۔ حافظ اسد نے نابینا پن کے باوجود تعلیم بھی حاصل کی۔ اللہ نے انہیں انتہائی خوبصورت آواز سے نوازا ہے۔ علاقے میں ہونے والی شادی بیاہ اور دیگر محفلوں میں لوگوں انہیں نہ صرف مدعو کرتے بلکہ خود لے کر جاتے اور واپس چھوڑتے ہیں۔
حافظ اسد ہندکو ماہیے اور ٹپوں سے محفل کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ ہندکو زبان بولنے اور سمجھنے والوں کو جب حافظ اسد کی کسی محفل میں موجودگی بارے علم ہوتا ہے تو کھنچے چلے جاتے ہیں اور ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے۔ حافظ اسد انتہائی زندہ دل انسان ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی نابینا پن کو اپنی کمزوری نہیں بنایا۔حافظ اسد کہتے ہیں کہ اگر وہ بینائی سے محروم ہیں تو کیا ہوا، ان کے دیگر جسمانی اعضا تو بالکل ٹھیک ہیں اور اللہ نے اُنہیں انتہائی خوبصورت سے نوازا ہے۔ اُنہوں نے جسمانی معذوری کا شکار دیگر افراد کے نام بھی پیغام دیا کہ وہ اپنی معذوری کو اپنی کمزوری نہ بنائیں اور ہمت و حوصلہ سے آگے بڑھنے کی تگ و دو جاری رکھیں۔