الحساء کی قدیم بندرگاہ، اور نقوش العقیر میلہ
بہت کم لوگوں کو پتہ ہو گا کہ سعودی عرب میں مشرقی شہر الحساء میں بھی خلیج عرب کا ساحل لگتا ہے، بلکہ یہ ایک "العقیر” نامی قدیم بندرگاہ بھی رکھتا ہے، جس کی ایک پوری تہذیبی تاریخ موجود تھی، پہلی بار سعودی عرب نے اس ماہ "نقوش العقیر” کا ایونٹ بھی رکھا۔ قریب دس صدیوں سے زائد عرصے تک العقیر کی تاریخی بندرگاہ خلیج عرب کے ساحلوں پر ایک اہمیت رکھتی رہی تھی، اس کی پہلی تعمیر 960 میں شروع ہوئی، یہ سعودی عرب کی تاریخ پرانی سمندری بندرگاہ میں سے ایک ہے اور یہ الاحساء میں پے در پے تہذیبوں کی اہم بندرگاہ رہی تھی۔
اسے العقیر یا العجیر کہا جاتا تھا، یہاں کے مقامی الاحساء کے لوگ اسے انہی ناموں سے پکارے ہیں، یہاں اجروا یا اجیروا قبیلے کے سلسلے تھے جو پہلے ہزار سال قبل مسیح میں اس علاقے میں آباد تھا، اسی نسبت سے اسے سن ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے العقیر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے سپنے عہد میں اس جگہ کو خصوصا سفارت کاروں سے ملنے اور خطے میں بین الاقوامی سیاسی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے ہیڈ کوارٹر کے طور پر بنایا رہا، جس کی وجہ سے اس جگہ کو اہمیت حاصل ہوگئی تھی اسی وجہ سے عبدالعزیز کے عہد میں یہاں ہر کسٹم آفس، پاسپورٹ آفس، مذاکراتی ہال، شاہی محل کی بلڈنگ، قلعہ، مسجد، پانی کا چشمہ، ٹماور اور سامان اور خوراک کے لئے ذخیرہ خانے بنائے اور سامان وغیرہ کی ترسیل کے اسی بندرگاہ کے ذریعے دارالحکومت ریاض کا رابطہ بنایا گیا تھا۔
یہاں جو میلہ لگایا گیا تھا، اس میں قدیم تجارتی سرگرمیوں کی لائیو پرفارمنس پیش کی گئی، ثقافتی ورثے کو دیکھانے کے لئے قدیم پیشوں اور کلچر یارہسہن کے کے مجسمے لگائے گئے رھے، ریت پر سجاوٹ کی گئی ہے، ماہی گیری، ملاحوں کے گانوں اور روایتی فنون کی پرفارمنس بھی رکھی گئی تھی، کیونکہ مقامی کئی لوگوں کا پیشہ ماہی گیری ہی تھا۔ اس میلے میں 60 ہزار سے زائد سیاح آئے تھے، جس میں بیسیوں مختلف پروگراموں کے علاوہ مقامی پروڈکٹس ، خصوصا سردیوں میں الحساء کے مقامی انار، کھجوریں اور مقامی روایتی کھانوں کے ریستوران اور اسٹال بھی موجود رہے۔ نوٹ: الحساء میں اس سمندری حصے تک جانے کے خواہشمند لازمی ابھی گاڑی کے ساتھ کی یہاں تک سفر کرسکتے ہیں ۔
نوٹ: الحساء میں اس سمندری حصے تک جانے کے خواہشمند گاڑی کے ساتھ یہاں تک سفر کر سکتے ہیں۔