پشاور دھماکہ: حملہ آور کون تھا، کہاں سے آیا؟
پشاور دھماکے کے شہدا کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 92 سے زیادہ افراد شہید جب کہ 160افراد زخمی ہیں، ان زخمیوں میں متعدد کی حالات تشویش ناک بتائی جا رہی ہے ۔ جس سے شہدا کی تعداد بڑھنے کے خدشات ہیں۔
منگل کے روز پشاور کی پولیس لائن مسجد میں ظہر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی تھی جب ایک خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اُڑا دیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے کے وقت مسجد میں 3 سے 4سو افراد موجود تھے۔
دھماکے کے فوری بعد وزیر اعظم شہباز شریف پشاور پہنچے تھے ، اُنہوں نے اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا تھا جس میں آرمی چیف، وزیر دفاع خواجہ آصف رانا ثنا اللہ اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب شریک ہوئی تھیں۔ کور کمانڈر اجلاس کی بھی اطلاعات ہیں تاہم اس اہم ترین اجلاس کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکی ہیں۔ البتہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے دھماکے کے فوری بعد کہا تھا کہ افغان سرزمین سے دھماکے کے شواہد موجود ہیں۔ یہ دوحہ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے جس میں طالبان نے دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
پولیس دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر ہے تاہم انتہا پسندوں کے مقابلے میں ان کے پاس روایتی اسلحہ ہے جب کہ انتہا پسند جدید اسلحہ سے لیس ہیں۔ سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ انتہا پسندوں کے پاس نیٹو کا چھوڑا ہوا اسلحہ ہے۔
تاحال طالبان نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تو پھر یہ حملہ کس نے کیا؟ حملہ آور کون تھا ، کہاں سے آیا اور حساس مقام تک کیسے پہنچا، سیکورٹی اور انٹیلی جنس ادارے اس بارے میں کچھ بتانے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔
ایک روز گزرنے کے باوجود خود کش حملہ آور کا کوئی سراغ نہیں مل سکا جو ہمارے سیکورٹی اداروں اور انٹیلی جنس کی کارکردگی پر گہرا سوال۔ اس طرح کے واقعات کے لوگوں کے ذہنوں اور نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ عوام کا یہ کہنا ہے کہ جب سیکورٹی اہلکار اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تو وہ اُن کی حفاظت کیسے یقینی بنائیں گے؟