جمہوریت جو پاکستانی سیاستدانوں کو خوب راس آئی
میں نے ہر دور میں جمہوریت کے حق میں آواز بلند کی ہے، کیونکہ دنیا کے اکثریتی ممالک میں یہی نظام رائج ہے اور دنیا کے ساتھ چلنے کیلئے جمہوری نظام ہماری مجبوری بھی ہے، تاہم گزشتہ تیس چالیس برس کی ہماری جمہوری تاریخ بدترین ناکامی کی علامت ہے۔ ایک سسٹم کی کامیابی کیلئے جتنا وقت درکار ہوتا ہے پاکستان کے عوام اہل سیاست کو اس سے زیادہ وقت دے چکے ہیں، آج پاکستانی معیشت کی تباہی کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں، جن کی سوچ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنے مفادات تک محدود ہیں۔
اسحاق ڈار معیشت کو ٹھیک کرنے آئے تھے مگر انہوں نے معیشت کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ غضب خدا کا ایک دن میں ڈالر کی قیمت میں تیس روپے سے زیادہ اضافہ ہوتا ہے، دوسرے دن پیٹرول کی قیمت میں یکمشت 35 روپے اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ کسی دوسرے ملک میں ایسا ہوا ہوتا تو وزیرخزانہ خودکشی کر لیتا ، مگریہاں ڈھٹائی دیکھیں کہ ابھی بھی وہ عہدوں پر ہیں، انہیں کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ حیرت ہے اہل سیاست آج بھی اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ معاشی ماہرین کہہ چکے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر چکا ہے مگر عوام سے مسلسل جھوٹ بولا جا رہا ہے تاکہ ان کے مفادات کو زد نہ پہنچے۔
اندازہ لگانے کیلئے دیگ کا ایک چاول ہی کافی ہے۔ آئین میں لکھا ہے کہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر انتخابات ہوں گے تاہم اتحادی حکومت انتخابات کو مؤخر کرنا چاہتی ہے اور جواز کے طور پر معاشی مسائل کو پیش کیا جا رہا ہے، کہ معیشت کو ٹھیک کرنے سے پہلے انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ بھائی آپ اس ملک اور عوام کی جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟ دس ماہ کی کارکردگی عوام کے سامنے ہے اتحادی حکومت نے اس مدت میں عوام کو کون سا ریلیف دیا ہے جو آئندہ دنوں دے سکے گی؟ اگرچہ ہمارے مسائل بہت زیادہ ہیں مگر الیکشن میں تاخیر کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی ہے یہ آئین کی واضح خلاف ورزی ہو گی۔ اہل سیاست جس جمہوریت کا علم بلند کرتے ہیں اور جو آئین انہوں نے خود بنایا ہے کم از کم اسی پر عمل کر لیں۔