معاشی بدحالی سے نجات کے رہنما اصول

اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت انسانوں اور قوموں کو آزماتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے "اور ہم بھوک اور خوف مسلط کر کے اور مال و دولت، جانوں اور پھلوں میں کمی لا کر تمہیں ضرور آزمائیں گے۔” (البقرہ، 155) آیت کا بغور مطالعہ کرنے اور ملک کی حالیہ صورت حال دیکھنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت ہم کسی ایک نہیں، بلکہ بہت سی آزمائشوں سے دوچار ہیں۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بے یقینی، داخلی بدامنی، اخلاقی پستی اور سیاسی افراتفری کا بھی شکار ہیں۔ البتہ پاکستان اس وقت مہنگائی اور معاشی بدحالی کے جس دور سے گزر رہا ہے، شاید ہی اس سے پہلے ایسے حالات آئے ہوں۔ مہنگائی اور معاشی بدحالی کے اسباب اور وجوہات کیا ہیں؟ ذیل کی سطور میں ان کا اجمالی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

ناشکری: جب انسان اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر گزاری کے تقاضوں کو بھلا کر ناشکری کرتے ہوئے غرور، تکبر اور گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتے ہیں، تو اللہ تعالی اپنی نعمتوں بالخصوص خوشحالی جیسی نعمت سے محروم کر دیتا ہے۔ سورہ کہف کی آیت نمبر 32 تا 44 میں بنی اسرائیل کے دو خوشحال اور سرمایہ دار آدمیوں کے قصے سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے، نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے، "اے انسانو! اگر تم (نعمتوں پر) شکر ادا کرتے رہو گے، تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔” (ابراہیم، 7)

دین سے انحراف: اگر کوئی قوم معیشت ومعاشرت، تہذیب و ثقافت اور سیاست و عبادت کے معاملے میں قرآن وسنت، اللہ اور رسول کی اطاعت اور دین سے روگردانی اختیار کرے گی، تو وسائل و اسباب کے باوجود اللہ تعالی اس کی معیشت کو تنگ کر دے گا۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ "جو کوئی میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو معاشی تنگی کا سامنا ہوگا۔” (طٰہ، 124)

کمزور طبقوں سے عدم توجہی: ایک حدیث میں آتا ہے "تمہیں اللہ کی طرف سے جو رزق دیا جاتا ہے، وہ تو تمہارے کمزور لوگوں کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔” یعنی کسی انسان کی ہوشیاری اور چالاکی کی وجہ سے نہیں، بلکہ کمزوروں کے ساتھ تعاون، محتاجوں کی امداد اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسانوں کے لیے کشادگی اور فراخی کے فیصلے کرتا ہے اور جو ان کمزور طبقوں کی رعایت نہیں رکھتے ان کے رزق میں تنگی اور معیشت میں بدحالی کے فیصلے نازل ہوتے ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں کوتاہی ہر معاشرے میں اچھے برے، نیک و بد اور صالح بدکردار لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اچھے، نیک اور صالح لوگوں کا شرعی فریضہ ہے کہ وہ برے اور بدکردار لوگوں کو نیکی کی دعوت دیں اور انہیں برائی سے باز رکھنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم لازمی نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالی تم پر عذاب مسلط کردے، پھر تم دعائیں مانگو لیکن تمھاری دعائیں قبول نہ کی جائیں۔” (ترمذی، 2095)

توبہ و استغفار میں سستی: انسان کمزور واقع ہوا ہے اور اس سے قدم قدم پر اللہ تعالی کی نافرمانی اور گناہ سرزد ہو جاتے ہیں۔ شہر و دیہات، گھر و بازار اور خلوت و جلوت کوئی جگہ ایسی نہیں، جہاں اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ ایسے میں اگر انسان توبہ و استغفار میں سستی کا مظاہرہ کرے، تو اللہ کے غیض و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے، جس کی ایک جھلک معاشی بدحالی کی صورت میں نمایاں ہے۔

سود خوری اور بدکاری: سودی لین دین بھی معاشی بدحالی کا باعث ہے۔ جس معاشرے میں سودی لین دین عام ہو جائے، وہ معاشرہ معاشی اعتبار سے کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ قرآن مجید میں ہے، "اللہ تعالیٰ سود (کے مال) کو مٹاتا ہے اور صدقات (کے مال) کو بڑھاتا ہے۔” (البقرہ، 276)

نیز سودی لین دین اللہ اور رسول سے جنگ کے مترادف ہے۔ اسی طرح فحاشی کا فروغ بھی معاشی بدحالی کا ایک اہم سبب ہے، جس قوم میں فحاشی و عریانی اور زنا پھیل جائے، اس پر مختلف سزائیں نازل ہو جاتی ہیں، جن میں سے ایک معاشی بحران ہے۔اسراف اور فضول خرچی: انسان کے پاس جس نعمت کی جتنی فراوانی ہوتی ہے، اتنی ہی اس کے دل میں ناقدری بھی ہوتی ہے۔ نعمتوں کو بے دریغ، بے موقع یا ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا اسراف اور فضول خرچی ہے، جو کہ ناشکری کی ہی قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کو فضول خرچ اور اسراف کرنے والا سخت ناپسند ہے۔ جو قوم نعمتوں کے استعمال میں اسراف سے کام لے کر ناشکری کی مرتکب ہوتی ہے، ایسی قوم سے اللہ تعالی اپنی نعمتیں واپس لے لیتا ہے۔ لہذا موجودہ ملکی معاشی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ بالا سطور کی روشنی میں چند مفید گزارشات پیش خدمت ہیں۔

٭ہر انسان کو حاصل شدہ جتنی بھی نعمتیں ہیں، وہ ان پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے اور اللہ کی تقسیم پر راضی و خوش رہے۔
٭ کوشش کرنی چاہیے کہ زندگی میں حتی المقدور اللہ تعالی کا کوئی حکم نہ ٹوٹے، جہاں دین کا حوالہ آ جائے تو اس پر عمل کرنے میں پس و پیش نہ کیا جائے۔
٭اپنے آس پاس اور معاشرے میں کمزور طبقوں کی حسب استطاعت مدد کی جائے۔
٭معاشرے میں نیکی کو عام اور برائی کی روک تھام کے لیے اپنی توانائی استعمال کی جائے۔
٭انفرادی اور اجتماعی سطح پر توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ مساجد میں دعاؤں کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
٭حکومت کو چاہیے کہ ملک میں حسب قانون غیر سودی نظام کے جلد نفاذ کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔
ایسا ادارہ تشکیل دیا جائے جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر مواد کی نگرانی کرے تاکہ فحاشی و عریانی کی روک تھام ہو سکے۔
عوامی سطح پر کفایت شعاری کو اپنایا جائے، خاص طور پر سرکاری دفاتر، افسران بالا اور اشرافیہ کو حاصل مراعات کو محدود کیا جائے، نیز غیر ضروری اخراجات میں بھی کمی لائی جائے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button