پریشان ہیں تو قرآن سنیں، دل کو قرار ملے گا
کتا ب اللہ کو سنیں اور اپنے اعصاب کو پُرسکون بنائیں، قرآن کریم کسی تجوید اور ترتیل سے پڑھنے والے قاری کی خوش الحانی و خوبصورتی و مؤثر پیرائے میں تلاوت سننے سے اللہ کی رضا مندی بھی ملے گی اور نفس کو سکون اور دل کو یقین اور سلامتی حاصل ہو گی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعض صحابہ سے قرآن سننا پسند کرتے تھے اور ان سے قرآن سن کر متاثر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے قرآن سنانے کی فرمائش کرتے حالانکہ قرآن آپ ہی پر نازل ہوا تھا اس طرح تلاوت سن کر آپ کو سکون بھی ملتا، خشوع اور راحت بھی حاصل ہوتی۔ آپ بھی اس طریقہ پر عمل کریں کہ چند منٹ وقت نکالیں۔ دن یا رات میں کوئی وقت متعین کر لیں اور ریڈیو یا ٹیپ ریکارڈ پر اپنے پسندیدہ قاری کو سنیں۔ زندگی کی الجھنیں، اضطراب اور مسائل آپ کو پریشان کرنے والی قوتوں کو توڑنے اور دل کو پراگندہ کرنے کیلئے کافی ہیں جن سے امن و سکون صرف کتاب اللہ میں اور اللہ کے ذکر میں ملے گا۔
ارشاد ہے ترجمہ: ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر پر مطمئن ہیں کہ اللہ کی یاد سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے‘‘(۱۳:۲۸)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سورہ نساء پڑھوا کر سنتے، آپ روتے حتیٰ کہ آپ کے رخسار پر آنسو پھیل جاتے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے’’بس اتنا کافی ہے‘‘ ابو موسیٰ الاشعریٰ رضی اللہ عنہ کے پاس سے آپ گزرتے ہیں جو قرآن پڑھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قرأت سننے لگتے ہیں اور صبح میں فرماتے ہیں کاش کہ تم مجھے کل دیکھتے جب میں تمہاری قرأت سن رہا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بولے اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں اور زیادہ خوش الحانی سے پڑھتا ابو حاتم نے روایت کی ہے ایک بڑھیا کے پاس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گزرتے اور اس کی قرأت دروازے کے پیچھے کھڑے ہو کر سنتے جب وہ پڑھتی’’ھل اتاک حدیث الغاشیۃ‘‘ تو اسے بار بار پڑھتی اور دہراتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ’’ ہاں میرے پاس وہ خبر آئی، ہاں میرے میرے پاس آئی‘‘
قرآن سننے سے کانوں میں رس گھلتا اور سکون محسوس ہوتا ہے ایک ممتاز مسلمان مصنف نے یورپ کا سفر کیا اور بحری جہاز پر بیٹھے ان کے ساتھ یوگو سلاویہ کی ایک کمیونسٹ عورت بھی سوار ہوئی جو ماشل تیٹو کے ظلم سے بھاگ کر آئی تھی راستے میں جمعہ کی نماز کا وقت ہو گیا۔ اس مسلمان مصنف نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور ساتھیوں کو نماز پڑھائی نماز میں سورۃ اعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ پڑھی، عورت عربی اچھی طرح نہیں جانتی تھی لیکن اس نے اس عجیب کلام کو سنا، اس کی نغمگی اور زیرو بم کی طرف کان لگائے، پھر ان آیات کے بارے میں مؤلف مذکور سے استفسار کیا۔ انہوں نے اسے بتایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے وہ حیران و ششدر کھڑی رہ گئی مؤلف کہتے ہیں کہ زبان نہ جاننے کی وجہ سے اسے اسلام کی دعوت نہ دے سکا سچ یہ ہے۔
ارشاد ہے ترجمہ:’’ اگر تمام انس و جن بھی قرآن کی مثل لانے پر ایکا کر لیں اور ایک دوسرے کا تعاون کریں تو بھی ایسا نہیں کر سکتے‘‘(۱۷:۸۸)
قرآن قلوب پر چھا جاتا ہے روحوں پر اس کی ہیبت طاری ہو جاتی ہے وہ دلوں پر ایک زبردست اثر ڈالنے والی قوت ہے سلف صالحین اور قدیم بزرگوں میں کتنے لوگ ہیں جو قرآن کی تاثیر سے پگھل جاتے اس کی سچی اور مؤثر لے اور زمزموں سے جُھک جُھک جاتے تھے۔
ارشاد ہے ترجمہ: ’’ اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ اللہ کی خشیت سے وہ پہاڑ بھی پگھلا جاتا ہے‘‘(۵۹:۲۱)
دیکھیں کہ علی بن فضیل بن عیاض کی روح پرواز کر گئی جب انہوں نے اپنے باپ کو یہ آیت پڑھتے سنا’’ وقفو ھم انھم مسئو لون مالکم لاتنا صرون‘‘(۳۷:۲۵)
جب کفار جہنم کے قریب پہنچیں گے توفرشتوں سے کہا جائے گا کہانہیں پل صراط پر ٹھہراؤ، بے شک ابھی ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔۔ قرطبی، الصافات)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ ترجمہ: ’’ اگر ایسا قرآن بھیجا جاتا جس سے پہاڑ چل پڑتے زمین کٹ کٹ جاتی مردے بول اٹھتے‘‘ (۱۳:۳۱)
سنی تو اس کے اثر سے بے قرار ہو گئے اور پورے ایک مہینے تک بیمار رہے ابن کثیر کے مطابق لوگ اس کی عیادت کیلئے ایسے ہی آتے رہے جیسے جسمانی بیمار کی عیادت کرتے ہیں۔ ذہبی نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ بن وہب جمعہ کے دن گزرے انہوں نے ایک لڑکے کو آیت کریمہ ’’ واذیتحاجون فی النار‘‘ ترجمہ: اور جب وہ آگ میں باہم جھگڑیں گے۔ یہ پڑھتے ہوئے سنا تو ہوش جاتے رہے، انہیں گھر لایا گیا تین دن بیمار رہے اور چوتھے دن دنیا کو خیر آباد کہا۔ ایک عالم نے بتایا کہ مدینہ میں انہوں نے نماز پڑھی، قاری نے سورہ واقعہ پڑھی، وہ کہتے ہیں کہ اتنا ذہول اور گہرا خوف طاری ہوا کہ میں بغیر ارادہ کے کانپ گیا، آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے اور آہ و زاری کے ساتھ رونے لگا’’ اس کے بعد کس بات پر یہ ایمان لائیں گے‘‘۔
۲۴ گھنٹے لاحق رہنے والی تشویش کافی ہے کہ آدمی کے عقل و شعور کو زنگ لگا دے اور اسے مایوسی میں مبتلا کر دے لیکن اگر انسان رب کریم کی طرف رجوع کرے اور اللہ تعالیٰ کی بات پر کان لگائے کسی اچھے قاری سے اس کا پیارا کلام سنے اور اس پر غور کرے تو اس کا شعور واپس آ جائے گا، دل مضبوط ہو گا، اضطراب ختم ہو جائے گا اور سینہ کے ابال میں ٹھہرائو آئے گا۔
جو لوگ میوزک میں خوشی و مسرت اور راحت سمجھتے ہیں انہوں نے اس بارے میں کتابیں بھی لکھی ہیں، بہت سوں کا تو دعویٰ ہے کہ جب موسیقی سنتے ہیں وہی سب سے خوبصورت لمحہ اور بہترین وقت ہوتا ہے، مغرب میں ایسے مصنفین کی کمی نہیں جو میوزک کو بھی خوشی و مسرت کے اسباب میں شمار کرتے ہیں انہوں نے اس موضوع پر لکھا ہے کہ رنج اور قلق کو دور کرنے میں موسیقی کا بڑا ہاتھ ہے،’’ کعبہ کے پاس ان کی نماز کیا تھی؟ محض تالی پیٹنا اور چلانا‘‘’’ یہ مدہوشی کے عالم میںہذیان بک رہے ہیں‘‘۔
واقعہ یہ ہے کہ میوزک ایک گناہ آلود متبادل ہے اس کا سننا حرام ہے ہمارے پاس تو اس سے بہت بہتر وہ چیز ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی جو سچائی کا خزانہ اور بہترین رہنمائی کا نسخہ ہے، جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ یہ ایسی کتاب ہے جس میں باطل آگے پیچھے کہیں نہیں آ سکتا وہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ ہے‘‘ لہٰذا ہمارا قرآن کو سننا ایمانی،شرعی اور محمدی سماع ہے۔’’ تم دیکھو گے کہ حق کی معرفت کے باعث ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں‘‘
ان کا میوزک کو سننا فضول عبث اور کار لایعنی ہے جسے جاہل احمق اورکم ظرف انجام دیتے ہیں: ترجمہ: ’’ کتنے ہیں جو اللہ کے راستے سے بھٹکانے کے لیے لہو و لعب کے خریدار بنتے ہیں‘‘(۳۱:۶)
قرآن سے تعلق کا ایک فائدہ یہ ہے کہ انسان کو برکت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: ترجمہ: اور یہ ایک بابرکت نصیحت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے۔ (انبیا)
جو بھی اس قرآن کو پڑھے گا اس کو برکت حاصل ہوگی اور جو اس قرآن کو چھوڑ دے گا اور اس سے غفلت برتے گا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اس کی معیشت کو تنگ کر دوں گا۔ ترجمہ: جس نے ہمارے اس کلام کے ساتھ اعراض کیا ہم اس کی معیشت کو تنگ کر دیں گے۔ (طہ)
قرآن سے دوری ہی وہ اہم سبب ہے کہ دنیا کی ہر سہولت موجود ہوتی ہے مگر پھر بھی دل کو چین نہیں آتا۔ ایک پریشانی ختم نہیں ہوتی، دوسری پریشانی سر پر کھڑی ہوتی ہے۔ آج گھروں میں برکت اس لئے نہیں ہے کہ گھروں میں قرآن نہیں ہے۔ قرآن کا نسخہ ضرور موجود ہو گا لیکن قرآن کے اوپر نہ عمل موجود ہے نہ ہی قرآن کے ساتھ تعلق موجود ہے، نہ قرآن کے پڑھنے کا کوئی معمول اور نہ ہی اسے پڑھانے کا۔ قرآن سے مضبوط تعلق دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے، اگر کامیابی چاہتے ہیں تو قرآن کے ساتھ تعلق کو مضبوط کر لیں۔