واپسی کی درخواست مسترد 43 اراکین کے استعفے منظور
سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے مزید 43 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر لئے ہیں ، حالانکہ گزشتہ دو روز سے تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح سے ان کی سپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات ہو جائے تاکہ جو اراکین باقی رہ گئے ہیں ان کے استعفے منظور نہ کئے جائیں، مگر بہت کوشش کے باوجود پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کی سپیکر سے ملاقات نہ ہو سکی۔ تحریک انصاف کے اراکین نے الیکشن کمیشن سے بھی رجوع کیا تاکہ وہ اپنی درخواست واپس لے سکیں، اسی طرح تحریک انصاف کے اراکین نے سپیکر قومی اسمبلی کو ای میل کر کے اپنی درخواست واپس لینے کے حوالے سے آگاہ کیا مگر ان تمام تر کوششوں کے باوجود تحریک انصاف کے 43 اراکین کے استعفے منظور کر لئے گئے ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ جب کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی درخواست واپس لے لینے کیلئے کوشش کرے اور سپیکر دانستہ طور پر ملاقات نہ کرے تو آئین اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟ امید ہے آئینی ماہرین اس کا جلد جواب دیں گے۔ یہ درست ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے پاس ایک سال سے تحریک انصاف کے استعفے موجود تھے مگر وہ انہیں قبول کرنے کا فیصلہ کرنے کی بجائے یہ کہتے دکھائی دیئے کہ تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ میں واپس آ جائیں اب جبکہ وہ خود ہی واپس آنے کیلئے کوشش کر رہے تھے تو اسپیکر نے ان سے ملاقات کرنی اور ان کی درخواست واپس کرنے کی بجائے اسے قبول کر لیا۔
سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے استعفے قبول کئےجانے کا اقدام سیاسی ضرورت اور مفاد کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ جب تک قومی اسمبلی میں 45 اراکین موجود تھے تب تک تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر منتخب کرا سکتی تھی۔ حکومت نے شاید اس کا راستہ روکنے کیلئے تحریک انصاف کے43 اراکین کے استعفے منظور کئے ہیں تاکہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اپنا قائد حزب اختلاف منتخب نہ کرا سکے۔ اسی کا نام سیاست ہے کل تحریک انصاف سیاسی چالیں چل رہی تھی آج اتحادی جماعتیں ویسی ہی چالیں چل رہے ہیں، اس میں ملک کا مفاد دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ہے۔