خوشگوار ازدواجی زندگی کیلئے یہ اصول اپنائیں
٭میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کی خوبیوں کو ہر وقت سامنے رکھیں، خامیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کریں، کیونکہ کچھ نہ کچھ خامی ہر انسان میں ہوتی ہے، اسی طرح کچھ نہ کچھ خوبیاں بھی ہو ایک میں ہوتی ہیں۔ اگر نظر خوبیوں پر رہے تو خامیوں کو نظر انداز کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
٭ خود بینی اور خود پرستی سے احتراز کریں، اس کے برعکس دوسرے کی خوبیوں کی تعریف کریں اور انہیں سراہیں۔
٭دونوں بیک وقت غصے کا مظاہرہ نہ کریں۔ ایک فریق ہر صورت میں تحمل اور برداشت سے کام لے۔ مرد کو خاص طور پر زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور خاتون کو کمزور ہی سمجھے، اسے اپنی شفقت، پیار اور محبت کا مستحق ہی سمجھے، اسے اپنا حریف اور مقابل ہرگز نہ سمجھے۔
٭تخلیہ ہو یا مجلس، ایک دوسرے کے خلاف جلی کٹی نہ کہیں۔
٭ایک دوسرے سے تیز گفتاری اور سختی سے پیش نہ آئیں بلکہ نرم گفتاری اور نرمی کو معمول بنائیں۔
٭ ایک دوسرے کی بات ماننے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔
٭ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی کو معمول بنائیں۔
٭نکتہ چینی یا بدخوئی اور تلخی سے اجتناب کیا جائے۔ اگر کبھی اس کی ضرورت پیش آہی جائے، تو نہایت حکمت اور شیریں الفاظ میں اس کا اظہار کیا جائے۔
٭ پچھلی غلطیاں دہرائی نہ جائیں، نہ وہ یاد دلائی جائیں، بلکہ ان کو فراموش کر دیا جائے۔
٭ہر فریق دوسرے کی جائز خواہش اور فطری جذبات کا احترام کرے،انہیں مجروح نہ کرے۔
٭ ایک دوسرے کو کبھی نظر انداز نہ کریں، بلکہ زیادہ سے زیادہ اپنائیت کا اظہار کریں۔
٭ایک دوسرے کی غیر موجودگی میں باہمی رازوں اور مشترکہ چیزوں کی حفاظت کریں۔
٭ایک دوسرے کو ہر حال میں خندہ پیشانی سے ملیں۔
٭بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی خدمت کریں۔ دوسرے کو خادم اور اپنے آپ کو مخدوم نہ سمجھیں، بلکہ گھر کا نظام باہمی تعاون سے چلائیں۔
٭کوئی ناراضی والی بات ہو جائے، تو اسے بڑھنے نہ دیں بلکہ اولین فرصت میں اسے ختم کر لیاجائے، چنگاری کو شعلہ بنتے دیر نہیں لگتی، عقل مندی یہی ہے کہ چنگاری کو شعلہ نہ بننے دیا جائے، ورنہ ہنستا بستا گھر اجڑ سکتا ہے، ایک خوش نما باغ خزاں میں تبدیل ہو سکتا ہے اور ایک نعمت کدہ جہنم کدہ بن سکتا ہے۔
٭ مرد بالا دست، قوام اور زیادہ قوت و ہمت والا ہے، اس لئے اسے عورت کے مقابلے میں زیادہ بردباری، صبر و قوت برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے، وہ عورت کی کمزوری اور فطری کجی کو حکمت اور صبر سے برداشت کرے۔ اسے بالکل سیدھا کرنے کے چکر یا زعم میں نہ پڑے، ورنہ وہ اسے سیدھا کرتے کرتے اپنا گھر اجاڑ لے گا۔
٭گھر میں آنے والے مہمان کا تعلق بیوی کے خاندان سے ہو یا شوہر کے خاندان سے، بحیثیت مہمان کے اپنی طاقت کے مطابق اس کی مہمان نوازی کی جائے۔ مہمان نوازی میں اپنے خاندان کے فرد کو تو اپنا سمجھا جائے اور دوسرے کو غیر،یہ تفریق بھی باہم بغض و عناد اور دلوں میں کدورت کا باعث بنتی ہے۔ اس سے اجتناب کیا جائے۔
٭تنگ دستی ہو یا خوشحالی دونوں حالتوں میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور پورے خلوص سے عہد وفا نبھائیں۔
٭دونوں اپنی خواہشات اور جذبات کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو فوقیت اور ترجیح دیں۔
٭گھر میں اور گھر سے باہر شرعی پابندی کا اہتمام کریں۔
٭ساس، آنے والی بہو کو اپنی بیٹی سمجھے، بیٹی کی طرح اس سے پیار کرے اور بیٹی کی طرح ہی اس سے سارا معاملہ کرے۔ بہو، اپنی ساس کو ماں سمجھے،ماں کی طرح اس کا ادب و احترام کرے اور بیٹی بن کر گھر کے کام کاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ عورت کی عزت کام کاج ہی میں ہے، نہ کہ شہزادی بن کر مسہری پر لیٹے رہنے میں۔
٭نندیں(خاوند کی بہنیں) بھی بھابھی کو بہن سمجھیں اور بہنوں کی طرح اس سے معاملہ کریں۔ گھر کے سارے کام باہم مل کر کریں۔ آنے والی دلہن ہی پر سارا بوجھ نہ ڈال دیں۔ ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ گھر کا سکون باہم پیار محبت میں ہے، نہ کہ باہم رقابت اور لگائی بجھائی میں۔
٭ زبان کی حفاظت کریں اور’’ پہلے تولیں،پھر بولیں‘‘ کے مقولے کو ہر وقت سامنے رکھیں کہ تلوار کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں لیکن زبان کے زخم نہایت خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ پہلے دل کو گھائل کرتے ہیں اور پھر گھر کی بربادی اور اولاد کی تباہی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
٭مرد نہایت غصے اور کشیدگی کے عالم میں بھی طلاق کا لفظ کبھی زبان پر نہ لائے اور اسی طرح عورت بھی خاوند سے طلاق کا مطالبہ نہ کرے، نہ طلاق لینے والا رویہ اختیار کرے۔دونوں ہر حالت میں عقد نکاح کو نبھانے کی کوشش کریں۔
٭ خاص طور پر صاحب اولاد ہونے کی صورت میں کبھی ایک دوسرے سے علیحدگی کا نہ سوچیں۔ علیحدگی کی صورت میں دونوں کا گھر ہی نہیں اجڑے گا، اولاد کا مستقبل بھی برباد ہو جائے گا۔ ان غنچوں کو بن کھلے ہی نہ مرجھا دیں۔ بلکہ دونوں مل کر اس کی حفاظت اور تربیت کریں، تاکہ وہ ثمردار درخت بن کر ان کے لیے گھنی چھائوں کا کام بھی دیں اور ان کیلئے بڑھاپے میں سہارا بھی بنیں۔