سعودی حکومت نے عمرہ کو ٹورازم کا ذریعہ بنا لیا

ہر مومن کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خانہ خدا کی زیارت کرے، اور روضہ رسول اللہ علیہ و آلہ وسلم پر حاضری دے۔ حج اور عمرہ اگرچہ مالی استطاعت سے متعلق عبادات ہیں لیکن عقیدت و محبت کے سامنے کوئی رکاوٹ حائل نہیں رہ سکتی۔ پاکستان جیسے ممالک میں بہت سے لوگ زندگی بھر کی جمع پونچی کے بعد سفر حج یا عمرہ کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں سے جانے والے افراد کی عقیدت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

اگرچہ چند برس پہلے مجھے اللہ تعالیٰ نے سفر حج کی سعادت سے نوازا، لیکن مکہ و مدینہ کے سفر کیلئے دل ہر وقت مشتاق رہتا ہے، اس بار بچوں کے ساتھ عمرہ کیلئے حاضر ہوئے۔ چند برس پہلے کئے جانے والے حج اور حالیہ عمرہ کے سفر میں کئی ایسے امور کو محسوس کیا جو زائرین کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

پاکستان کے علاوہ دوسرے مسلم ممالک نے سعودی عرب کے ساتھ حج اور عمرہ کا جو معاہدہ کر رکھا ہے اس میں زائرین کی سہولت کو سامنے رکھ کر معاہدہ کیا جاتا ہے، پاکستانی زائرین کا دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو انہیں دستیاب سہولیات اور مجموعی پیکج میں نمایاں فرق دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کی ہی مثال لے لیں وہاں پر ساٹھ ہزار روپے میں عمرہ ہو جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اکانومی پیکج کے ساتھ دو لاکھ روپے سے زائد خرچ آتا ہے، پاکستانی کرنسی کی قدر کھو جانے سے بھی کچھ اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ سعودی حکومت کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت کچھ امور کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔

ویزہ فیس کے نام پر آٹھ سو ریال وصول کئے جاتے ہیں حتیٰ کہ کم عمر بچوں کیلئے بھی یہی فیس ادا کرنا ضروری ہے، جس میں صرف ٹرانسپورٹ کی سہولت دسیتاب ہوتی ہے، ٹرانسپورٹ سے مراد ایئرپورٹ سے زائرین کو بسوں کے ذریعے ہوٹل تک پہچانا ہوتا ہے، یا مکہ سے مدینہ تک۔ جدہ سے مکہ ایک گھنٹے کا سفر ہے مگر ہم نے یہ سفر سات گھنٹوں میں طے کیا، کیونکہ سواریاں پوری ہونے کے بعد ہی بس چلتی ہے۔ کھانا پینا اور دیگر اخراجات زائرین خود اٹھاتے ہیں، پاکستانی روپیہ ڈی ویلیو ہونے سے اس وقت 62 روپے کا ریال ہے، اس لئے پاکستان زائرین کو عمرہ پیکج بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔

ہم پاکستان میں مہنگائی کا رونا روتے ہیں مگر عمرہ زائرین مہنگائی کی لہر جو سعودی عرب میں محسوس کرتے ہیں وہ پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، بھلے وقتوں میں پاکستانی زائرین وہاں معمولی رقم سے گزارہ کر لیا کرتے تھے، اب مگر ایسا ممکن نہیں رہا، جو احباب عمرہ کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں موجودہ حالات میں اضافی رقم اپنے ہمراہ رکھنی چاہئے تاکہ ممکنہ پریشانی سے بچا جا سکے۔

ناشتہ جو ہم یہاں پاکستان میں انڈہ پراٹھا کے ساتھ سو ڈیڑھ سو روپے میں کر لیتے ہیں وہاں پر بیس ریال ادا کرنے پڑتے ہیں جو پاکستانی روپوں میں بارہ سو روپے سے زائد بنتے ہیں۔ تین وقت کے کھانے کا حساب لگائیں تو فی کس کے حساب سے ایک دن کا خرچ پاکستان روپوں میں چار ہزار سے بڑھ جاتا ہے، دو تین لوگوں کا روزانہ کا خرچ جیب پر بھاری پڑتا ہے، وہاں سے شاپنگ اور تبرک کے طور پر خریداری بہت مشکل کام ہو گیا ہے۔

ایک ٹیکسی والے سے پوچھا کہ آپ لوگ اس قدر زیادہ کرایہ کیوں وصول کرتے ہیں تو عجیب جواب دیا کہ حکومت نے حرم کے قریب گاڑیوں کیلئے پارکنگ ٹکٹ دس ریال کر دیا ہے، جبکہ چار پانچ سو میٹر دور پارکنگ ٹکٹ چار ریال ہے، اس لئے ٹیکسی والے سواریوں سے اضافی کرایہ وصول کرتے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ حرم کے قریب پارکنگ پوائنٹ فری ہوتا یا ٹکٹ کم رکھا جاتا تاکہ عمرہ زائرین کو فائدہ ہوتا۔ ٹورازم میں مالی فوائد کے پیش جو پالیسی اپنائی جاتی ہے سعودی حکام نے عمرہ زائرین کیلئے بھی ویسی ہی پالیسی اپنا رکھی ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔

دو باتوں پر سعودی انتظامیہ کے طرز عمل پر مایوسی ہوئی۔ ایک یہ کہ روضہ رسول پر حاضری کیلئے ایپ پر اپلائی کر کے اپوائنٹمنٹ لینا ضروری ہوتا ہے یہ کام سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں ہے، ہمارے یہاں گاؤں دیہات سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کو اس حوالے سے شکایات رہتی ہیں مگر سعودی اس کی پرواہ کہاں کرتے ہیں، کئی لوگوں کو تو روضہ کے قریب سے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔

ایک شخص جو ویزہ سے لے کر ہر طرح کے مسائل کا سامنا کرتا ہے اگر اسے روضہ رسول پر حاضری کی اجازت بھی نہ دی جائے تو پوری زندگی اس کا پچھتاوا کم نہ ہو گا۔ سعودی حکام مگر ہمارا درد جاننے سے قاصر ہیں کیونکہ ان مقدس مقامات کا جو احترام ہمارے دلوں میں ہے وہاں عرب ممالک میں اس کا تصور نہیں ہے۔ چند گھنٹوں کیلئے ایپ کام کرنا چھوڑ گئی تو لوگ اپوائنٹمنٹ کے بغیر روضہ رسول پر حاضری کیلئے حاضر ہوئے، مگر انہیں واپس کر دیا گیا، میں نے کئی لوگوں کو روتے ہوئے واپس جاتے دیکھا، کون کرے گا اس کا ازالہ۔ کیسے آئے گا ان کے دلوں کو قرار۔ جو روضہ رسول کے قریب جا کر بھی زیارت سے محروم رہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں مزارات کو خاص مقام حاصل ہے، لوگ مزاروں سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں ، جب بات سرکار کے روضہ اطہر یا اہل بیت اطہار کی مبارک قبور کی ہو تو یہ عقیدت آسمان کو چھونے لگتی ہے۔ کسی زمانے میں اہل بیت اطہار کے مزارات تھے جنہیں منہدم کر دیا گیا، اب ان کی مبارک قبور ہیں مگر ان تک رسائی کسی نہایت مشکل بنا دی گئی ہے۔ مکہ کے جنت المعلی قبرستان میں اسلام کی خاتون اول حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کا مزار تھا آج ان کی مبارک قبر کی زیارت کرنا مشکل ہے کیونکہ بہت کم لوگ ان کی مبارک قبر کے اصل نشانات سے متعلق جانتے ہیں۔

اسی طرح کسی زمانے میں جنت البقیع میں خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا کا مزار ہوا کرتا تھا، مگر آج وہ بھی نہیں ہے حتیٰ کہ ان کی مبارک قبر کی زیارت عام زائر کیلئے مشکل ہے، بلکہ جنت البقیع میں داخلہ ہی مشکل ہے۔ خانہ کعبہ اور روضہ رسول دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے عقیدت کی جگہیں ہیں، مگر وہاں جا کر ایک مسلک کی اجارہ داری کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ جب ترکوں کا دور تھا تو انہوں نے روئے زمین کے مسلمانوں کیلئے مکہ و مدینہ تک آسان رسائی کا بندوبست کیا تھا مگر آج ترقی کے دور میں عام مسلمانوں کیلئے مکہ و مدینہ تک رسائی مشک بنا دی گئی ہے جو مسلمانوں کے دلوں کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button