عورت کیلئے ڈگری والی تعلیم کتنی ضروری؟
عورت ماں اور سرپرست کی صورت میں ابتدائی عمر کے تمام انسانی مجموعہ کی امین ہے، اس کو یہ فریضہ سونپا گیا ہے کہ وہ ابتدائی عمر میں انسان کے اندر وہ مزاج اور وہ سیرت اور وہ اخلاق پیدا کرے جس کے نتیجہ میں ہر انسان اپنے سماج کا صالح ممبر بن سکے۔ صدیوں تک بچوں کی تریبت اور تعلیم کی ذمہ دار ماں ہی سمجھی جاتی تھی، شادی سے پہلے یہ بات مقدم رکھی جاتی تھی کہ جس خاتون سے شادی ہونے جا رہی ہے وہ بچوں کی تربیت کی اہل ہے یا نہیں؟
ہر گھر ایک تعلیمی ادارہ اور تربیتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا، جو بچہ پیدا ہوتا وہ اپنی ماں کی سرپرستی میں دن رات تعلیم و تربیت حاصل کرتا۔ نسل انسانی کا یہ سلسلہ ایک ہزار برس تک جاری رہا، یہی وجہ ہے کہ آغاز اسلام کے بعد ہزار برس تک سماج میں کبھی وہ بگاڑ نہیں آیا جس کا مشاہدہ آج ہو رہا ہے۔ صنعتی انقلاب آیا تو روایتی تعلیم کی اہمیت ختم ہو گئی، معاشی ترقی کیلئے ضروری ہو گیا کہ انسان اسکول اور کالج کی تعلیم حاصل کرے، وہ ڈگری اور سرٹیفکیٹ کے اعتبار سے اپنے آپ کو تعلیم یافتہ ثابت کرے۔
اس تبدیلی نے ہر گھر کی قدیم حیثیت ختم کر دی، روایتی تعلیم کی اہمیت گھٹا دی، بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی سکول داخل کرنے کا رجحان بڑھنے لگا، یوں اس تبدیلی نے انسانی معاشرہ کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اب ایسے نوجوان پیدا ہونے لگے جو اخلاقی قدروں سے آزاد تھے وہ صرف اپنی خواہش کو جانتے تھے نہ کہ کسی اصول یا معیار کو۔ آج ہمارا پورا معاشرہ اسی قسم کا ایک جنگل بنا ہوا ہے۔ بعض لوگ اس صورتحال کو دیکھ کر مایوس ہو رہے ہیں لیکن درست طریقہ یہ ہے کہ زمانے کے جدید تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس کا مقابلہ کیا جائے۔ اس ضمن میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو جو اعزاز حاصل تھا اسے وہ اعزاز واپس دلانا ہو گا، زمانہ قدیم میں عورت سکول کا کردار ادا کر رہی تھی، اب بچے ماں کی بجائے سکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اس لئے اب سکول ہی وہ جگہ ہے جس کا چارج لے کر عورت اپنی فطری ذمہ داریوں کو ادا کر سکتی ہے۔
خالق کو عورت سے یہ مطلوب ہے کہ وہ نسل انسانی کی ابتدائی تربیت کرے۔ اس کے لیے عورت کو فطری طور پر ایسا بنایا گیا ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو بخوبی طور پر ادا کر سکے۔ عورت کے اندر نرمی، شفقت، صبر اور جذباتی تعلق جیسی صفات دی گئی ہیں جو اس کام کے لئے بے حد ضروری ہیں۔ قدیم زمانہ میں یہ فطری اوصاف ہی کافی تھے کہ عورت اپنے مفوضہ کام کو بخوبی طور پر انجام دے سکے۔ مگر اب جدید حالات میں صرف یہ فطری اوصاف کافی نہیں۔ اب ضرورت ہے کہ عورت باقاعدہ طور پر ڈگری والی تعلیم حاصل کرے۔ وہ جدید علوم سے آشنا ہو۔ اسی کے ساتھ وہ جدید معنوں میں تعلیمی تربیت حاصل کرے۔ وہ ڈگری کے مانے ہوئے معیار پر یہ ثابت کرے کہ وہ اسکول کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی اہل ہے۔ وہ آج بھی اپنے اس فریضہ کو ٹھیک اسی طرح ادا کر سکتی ہے جس طرح وہ اس سے پہلے زرعی دور میں کامیابی کے ساتھ ادا کر رہی تھی۔
جدید نسلوں کو اخلاقی انارکی سے بچانے کی یہی واحد صورت ہے۔خواتین کو جاننا چاہئے کہ اب ان کا مقام عمل نہ صحرا ہے اور نہ گھر۔ بلکہ اب وہ بنیادی طور پر اسکول ہے۔اب ان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی تیاری ان جدید تقاضوں کے مطابق کریں۔ وہ جدید تعلیم حاصل کریں۔ وہ تعلیمی اعتبار سے اپنے آپ کو تربیت یافتہ ٹیچر ثابت کریں۔ اس طرح خواتین دوبارہ نئے نظام میں معمار انسانیت بن جائیں گی جس طرح اس سے پہلے وہ قدیم نظام میں معمار انسانیت بنی ہوئی تھیں۔
معروف مذہنی اسکالر مولانا وحیدالدین خان اپنی کتاب ’’عورت معمار انسانیت‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ۲۴اپریل۲۰۰۴ کو دہلی میں ایک ٹیلی ویژن پروگرام تھا۔ اس پروگرام میں ایک مسلم پروفیسر بھی شامل تھے۔ چائے کی میز پر گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ میری زندگی کی تعمیر میں میری ماں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کہا کہ ۱۹۶۷ میں، میں نے میٹرک پاس کیا۔ میرے گھر کے معاشی حالات اچھے نہ تھے۔ میں آگے پڑھنا چاہتا تھا مگر میرے باپ نے کہا کہ اب وہ مزید تعلیم کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔اس لئے اب مجھے تعلیم کا خیال چھوڑ کو کوئی معاشی کام کرنا چاہئے۔
مگر میں اپنے آپ کو اس کے لئے تیار نہیں پاتا تھا کہ تعلیم کا سلسلہ چھوڑ دوں، مسئلہ یہ تھا کہ اگلے تعلیمی مرحلہ میں داخلے کی فیس ادا کرنے کیلئے بھی میری جیب میں پیسہ نہیں تھا۔ میری ماں نے میرے شوق کو دیکھ کر کہا کہ میرے تمام زیورات فروخت ہو چکے ہیں۔ میرے پاس اب صرف کان کی ایک بالی موجود ہے وہ میں تم کو دیتی ہوں۔ تم اس کو بیچ کر اس سے اپنی فیس ادا کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ سونے کی اس بالی کو لے کر میں بازار میں گیا۔ وہاں مجھے اس کے۸۰ روپئے ملے۔ اس رقم سے میں نے داخلہ کی فیس ادا کی اور اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دوران بہت سے اونچ نیچ پیش آئے۔ مگر میری ماں ہر مرحلہ میں میری ہمت بندھاتی رہیں۔ یہاں تک کہ میں نے تعلیم مکمل کر لی اور اب میں یونیورسٹی میں پروفیسر ہوں۔ یہ صرف ایک شخص کی کہانی نہیں ہے بلکہ جس کامیاب آدمی سے بھی آپ پوچھئے وہ بتائے گا کہ میری زندگی کی تعمیر میں میری ماں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ میری کامیابی کا کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے تو وہ صرف میری ماں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت، ماں کے روپ میں ہر انسان کی سب سے بڑی مددگار ہے۔ وہ ہر انسان کی ترقی میں سب سے زیادہ مؤثر رول ادا کر رہی ہے۔ ماں کی حیثیت سے عورت کا یہ کردار اتنا زیادہ عام ہے کہ ہر آدمی اپنے ذاتی تجربہ سے اس کو جانتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر ماں ہر جگہ اور ہر دور میں اپنا یہ رول ادا کرتی رہی ہے۔اسلام اس فطری حقیقت پر گویا ایک اضافہ ہے۔
اسلام عورت کے اندر ایک آفاقی ذہن پیدا کرتا ہے۔ اسلام کا مدعا یہ ہے کہ عورت صرف معمار فرزند نہ رہے بلکہ وہ معمار انسانیت بن جائے۔ وہ فطرت کی دی ہوئی نسوانی صلاحیت اپنے بیٹے اور بیٹی تک محدود نہ رکھے بلکہ وہ اس کو پوری نوع انسانی کے لئے خیر کا ذریعہ بنا دے۔ عورت کو خدا نے معمار انسانیت بنا کر پیدا کیا ہے۔ یہ عورت کا کمتر استعمال ہو گا کہ اس کو صرف معمار فرزند تک محدود کر دیا جائے۔موجودہ زمانہ میں ڈگری والی تعلیم کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ ہر جگہ جاب کے لیے ڈگری کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس نئی صورتحال نے اسکولی تعلیم کی اہمیت بہت زیادہ بڑھا دی ہے کیونکہ اسکول کی تعلیم جتنی زیادہ اچھی ہو گی اتنی ہی زیادہ آگے کی تعلیم اچھی ہو سکے گی۔ اس نئی صورتحال نے عورتوں کے لیے مخصوص اسباب سے ایک بہت بڑا جاب مارکیٹ پیدا کر دیا ہے۔ اور وہ ٹیچنگ کا کام ہے۔
آج عورتیں بہت بڑے پیمانہ پر ٹیچنگ کے کام میں نظر آتی ہیں۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ عورتیں زیادہ کامیاب اسکول ٹیچر ثابت ہوتی ہیں۔اس طرح گویا موجودہ زمانہ کی خواتین عملاً اپنے اس مقام عمل میں پہنچ چکی ہیں جو ان کے لیے فطرت نے مقدر کیا ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں خواتین اس کام کو زیادہ تر پروفیشن کے طور پر کرتی ہیں۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ وہ ٹیچنگ کے اس جاب کو مشن کے طور پر انجام دینے لگیں۔ وہ پروفیشن ٹیچر کے بجائے مشنری ٹیچر بن جائیں اور اس کے بعد انسانی نسل کی تربیت کا وہ کام اپنے آپ ہونے لگے گا جو آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔