آپ شوہر کے مزاج کو کتنا جانتی ہیں؟
بیوی شوہر کے مزاج کو جان کر خود کو اس کے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے تو ازدواجی زندگی خوشگوار بن سکتی ہے
ازدواجی زندگی میں یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو کتنا سمجھتے ہیں، یہاں سمجھنے سے مراد صرف کھانے پینے کا خیال رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ مزاج کو جاننا ضروری ہے۔ اکثر خواتین شوہر کے ساتھ برسوں گزارنے کے بعد بھی اس کے مزاج سے واقفیت حاصل نہیں کر سکتی ہیں، شوہر کی مزاج شناسی نہ ہونے کی وجہ سے معمولی بات پر جھگڑا اور ناراضی ہو جاتی ہے، بعض جوڑوں کی اولاد جوان ہوتی ہے مگر اس کے باوجود ان کے درمیان لڑائی جھگڑا جاری رہتا ہے، کیونکہ ذہنی ہم آہنگی اور مزاج نہیں ملتا ہے۔
جو خواتین شوہر کے مزاج کو جان لیتی ہیں ان کی ازدواجی زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے۔ ذیل کی سطور میں اس معاملے کو سمجھنے کیلئے مردوں کی دو اقسام کو ذکر کیا جا رہا ہے۔ مردوں کی ایک قسم ایسے افراد پر مشتمل ہوتی ہے جن کی تعلیم واجبی سی ہوتی ہے اور وہ خواتین کی دانش پر انحصار کرتے ہیں، یہاں تک کہ ایسے مردوں کی شاپنگ بھی ان کی بیویاں کرتی ہیں، کھانے پینے میں ان کے سامنے جو کچھ رکھ دیا جائے وہ خوشی سے کھا لیتے ہیں۔ اس قسم کے مردوں کے ساتھ عام طور پر خواتین خوش رہتی ہیں کیونکہ ان کی ہر جگہ پر اجارہ داری اور مرضی چلتی ہے۔
مردوں کی دوسری قسم پڑھی لکھی اور قدر حساس ہوتی ہے ایسے مرد کھانے پینے میں بہت نخریلے ہوتے ہیں ان کی پسند کا کھانا نہ ملے تو ناراضی کا اظہار کرتے ہیں کبھی دبے لفظوں میں اور کبھی کھلے لفظوں میں۔ اس قسم کے مرد اپنی شاپنگ خود کرتے ہیں اگر بیوی کوئی چیز خرید کر دے یا گفٹ کرے تو اس میں بھی سو طرح کے نقص نکالتے ہیں۔ ایسے مردوں کا مزاج بالعموم حاکمانہ ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بات مانی جائے، ان کی رائے سے اختلاف نہ کیا جائے۔
جس شخص کو بھی فیصلہ سازی کا اختیار دیا جائے گا لامحالہ وہ اپنا پروگرام مخفی رکھے گا ،اس لئے ایسے مرد اپنے ذہن میں پورا پروگرام تشکیل دے چکے ہوتے ہیں وہ اچانک فیصلہ سناتے ہیں تو بیوی اس سے اختلاف کرتی ہے مرد کو اختلاف گوارہ نہیں ہوتا تو آپس میں جھگڑا پیدا ہوتا ہے اس جھگڑے سے بچنے کا آسان فارمولہ یہ ہے کہ بیوی شوہر کے مزاج کو جان لے کہ اس کا شوہر کس کیٹیگری کا ہے، اگر اس کی طبیعت حاکمانہ ہے تو پہلے مرحلے میں جو شوہر کہے اسے خاموشی کے ساتھ سن لیا جائے، اگر بیوی نے کوئی پروگرام اپنے طور پر بنا بھی لیا ہے تب بھی شوہر کے سامنے یہ ظاہر کرے کہ جیسا آپ کہیں ویسا ہو گا۔
بیوی کے اس طرز عمل اور لچک کی وجہ سے جارحانہ مزاج کا حامل شوہر بیوی کی بات سننے پر مجبور ہو گا، جب بیوی محسوس کرے کہ شوہر پوری توجہ سے اس کی بات سننے کیلئے تیار ہے تو اپنا پروگرام اس کے سامنے اس طرح پیش کرے جیسے شوہر سے مشورہ کر رہی ہے۔ چند دن کی مشق اور اپنے غصے پر قابو پا کر خواتین شوہر کے مزاج کو جان سکتی ہیں لیکن اگر آپ نے برابری کی بنیاد پر مقابلہ جاری رکھا تو ازدواجی زندگی میں کبھی بھی لڑائی جھگڑے ختم نہیں ہوں گے حتیٰ کہ بچے جوان ہو جائیں گے۔
بہت سی خواتین مگر اس راز کو جاننے سے قاصر رہتی ہیں کیونکہ مردوں کی طرح ان کا مزاج بھی جارحانہ ہوتا ہے، والدین کے گھر میں ان کی حاکمیت چلتی تھی وہ چاہتی ہیں کہ شوہر کے گھر میں بھی اسی طرح حاکمیت چلتی رہے۔
جب حاکمیت قائم ہونے کی امکانات نہیں ہوتے ہیں تو ایسی خواتین برابری کے حقوق کی بات کرتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں بہر طور خواتین شوہروں کے تابع ہوتی ہیں جب شوہر کا مزاج بھی جارحانہ ہو تو پھر اس کا بہترین حل یہی رہ جاتا ہے کہ بیوی شوہر کے مزاج کو جان کر خود کو اس کے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے کیونکہ دوسرا راستہ علیحدگی کا باقی رہ جاتا ہے۔