وفاداری نے ملازم کو شاہی تخت پر بٹھا دیا
ابو الحسن علی بن زکی کہتے ہیں:
’’ میں جنگ طولون میں اپنے ساتھی عیسیٰ نوشری کے ہمراہ تھا۔ وہ محمد بن سلیمان کا منشی تھا، یہاں تک کہ جب ’’ مصر‘‘ فتح ہوا تو اس کی مکمل ذمہ داری عیسیٰ کے سر پر آ گئی۔
عیسیٰ نوشری کہتے ہیں:’’ ایک روز محمد بن سلیمان’’ فسطاط‘‘( مصر کا مشہور شہر) کی طرف نکل پڑے۔ چلتے چلتے وہ ایک محل کے نزدیک جا پہنچے جو بادشاہ مصر’’ احمد بن طولون‘‘ کا تھا۔ اس محل کا نام ’’ ساحلی محل ‘‘ تھا، کیونکہ وہ’’ دریائے نیل ‘‘ کے پُرکیف ساحل پر ایک اونچے مقام پر بنا ہوا تھا۔ وہ اس محل میں آ کر بیٹھ گئے۔ اس وقت ان کے ہمراہ حسین بن ہمدان اور دیگر ملکی قائدین کی ایک جماعت بھی تھی۔
اس وقت انہوں نے ایک بات کہی: ’’تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے اور وہ جو چاہے کر دے۔‘‘
حسین بن ہمدان کہنے لگے: ’’ تمہاری اس حمد و ثناء میں ضرور کوئی نہ کوئی بات پو شیدہ ہے۔‘‘
محمد بن سلیمان کہنے لگے:’’ جی ہاں! اور وہ بڑی دلچسپ بات ہے جو مجھے ابھی ابھی یاد آئی۔ وہ یہ کہ جس وقت میں مصر میں آیا تھا، اس وقت میری حالت بالکل غلاموں جیسی تھی۔ مصر میں پہنچ کر میری زندگی مزید تنگ ہو گئی۔ میں نے لؤ لؤ طولونی سے رابطہ کیا تو اس نے مجھے اپنے اصطبل کے گھوڑوں کے چارے کی نگرانی کا کام سپرد کر دیا۔ اس کے بدلے میں ماہانہ دو دینار تنخواہ دیتا۔ اس وقت مجھے اچھی طرح جانتا بھی نہ تھا اور نہ ہی میں اس کے سامنے کھڑا ہو سکتا تھا۔
جب کچھ دن گزر گئے تو اس نے مجھے بلایا اور کہنے لگا: ’’ کم بخت! تجھے بادشاہ ( احمد بن طولون) کیسے پہچانتے ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’ اللہ کی قسم! انہوں نے مجھے نہ کبھی دیکھا ہے اور نہ ہی میری کوئی ایسی خاص حیثیت ہے کہ میں بادشاہ سے ملاقات کے لیے کوئی پیش رفت کرتا۔‘‘
لؤلؤ طولونی:’’ مجھے امیر نے بلایا تھا۔ وہ اپنے ’’ ساحلی محل ‘‘ میں تھے۔‘‘
انہوں نے مجھ سے کہا: ’’ تمہارے ساتھ ایک آدمی ہوتا ہے، جس کی ایک آنکھ نیلی ہے اور اس کا نام محمد بن سلیمان ہے۔‘‘
لؤلؤ طولونی: ’’ میں تو اسے نہیں جانتا۔‘‘
احمد بن طولون:’’ وہ تو تمہارے قریب ہی ہوتا ہے۔ تم اسے اپنے سے دور کر دو! میں نے اسے گزشتہ شب خواب میں دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں جھاڑو تھی، جس سے وہ میرے گھر میں جھاڑو لگا رہا تھا۔ اللہ کے بندے! اس سے بچ کر رہو اور اس کے کسی بھی ساتھی سے جان پہچان نہ بڑھائو۔‘‘ لیکن لؤلؤ طولونی نے مجھے اپنے عہدے پر برقرار رکھا۔
اس واقعے کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ لؤلؤ طولونی نے دوبارہ مجھے بلالیا اور کہنے لگا:’’ تیرا ناس ہو! مجھے تمہاری وجہ سے بار بار پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور تجھ کو بھی کتنی زیادہ پریشانی اٹھانا پڑ رہی ہے۔ بادشاہ نے مجھے کئی ڈاکیوں کے ذریعے طلب کیا۔ میں نے بادشاہ سے ہانپتے کانپتے ملاقات کی۔ بادشاہ نے دوبارہ محض تمہارے متعلق بات کی ہے، بادشاہ نے مجھ سے پوچھا:’’ کیا میں نے تمہیں محمد بن سلیمان( نیلی آنکھ والے) کو ہٹانے کا حکم نہیں دیا تھا۔‘‘
لؤلؤ طولونی:’’ سرکار! میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں اسے نہیں جانتا، نہ ہی میں نے کسی ایسے شخص کو خادم بنایا ہے جس کا یہ حلیہ ہو جو آپ نے بیان کیا ہے اور نہ ہی کبھی میں نے اسے دیکھا ہے۔‘‘
بادشاہ:’’ تم جھوٹ بولتے ہو! وہ تمہارے اصطبل میں کام کرتا ہے۔ اسے فوراً ابھی شہر بدر کر دو! کیوں کہ میں نے اسے کل رات دوبارہ خواب میں دیکھا تھا کہ اس کے ہاتھ میں جھاڑو ہے،جس سے وہ میرے گھر کے تمام کمروں وغیرہ کو جھاڑو لگا رہا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ اس کے شر سے ہم اللہ تعالیٰ کی کفایت مانگتے ہیں۔‘‘
محمد بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے لؤلؤ طولونی سے کہا: ’’ آخر ان خوابوں میں میرا کیا قصور ہے سرکار!‘‘
لؤلؤ طولونی:’’ تم صحیح کہہ رہے ہو، مگر اب بات بہت خراب ہو چکی ہے۔ اس لئے جب تک بادشاہ تمہارا تذکرہ نہ چھوڑ دے اس وقت تک تم کہیں روپوش ہو جائو!‘‘
محمد بن سلیمان کہتے ہیں:’’ میں اس کے حکم کو بجا لایا اور کچھ عرصے کے لئے روپوش ہو گیا، مگر اس نے اس کے باوجود میرا وظیفہ جاری رکھا، جب کہ میں کوئی بھی کام نہیں کرتا تھا۔‘‘
بادشاہ ( احمد بن طولون) نے لؤلؤ کو کسی وجہ سے ناراض ہو کر ملک شام کی طرف بھیجنے کی تیاری کی تو میں بھی اس کے ساتھ چل پڑا۔ حالانکہ مصیبت کے ان لمحوں میں اس کے قریبی مصاحب بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور وہ مصر میں ہی رہ گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب لؤلؤ کی بادشاہ کے ہاں کوئی خاص وقعت نہیں رہی، جب ہی تو اسے ملک شام روانہ کر رہا ہے۔
لؤلؤ نے میری اس غیر معمولی وفاداری کو دیکھ کر مجھے اپنے سے قریب کر لیا اور مجھے اپنا خاص ہم نشین بنا لیا۔ اس نے میری تنخواہ میں بھی اضافہ کر دیا اور بجائے دو دینار کے دس دینار ماہانہ جاری کر دیے اور سواری کی سہولت بھی مجھے مہیا کر دی۔چنانچہ میں نے بھی اس کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور اس کے تمام کاموں کی انجام دہی تندہی سے کرنے لگا۔ اس پر اس نے میرے عہدے میں مزید ترقی کر دی۔
ہم نے مصر سے رختِ سفر باندھا اور ملک شام کے ارادے سے چل پڑے۔ ابھی ہم مقام ’’ عریش ‘‘ پر ہی پہنچے تھے کہ بادشاہ( احمد بن طولون) کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور اس نے دوبارہ اسے مصر کی طرف پلٹنے کا حکم جاری کر دیا۔
لؤلؤ طولونی نے مجھ سے رائے لی: ’’ کیا کرنا چاہئے؟‘‘
محمد بن سلیمان کہتے ہیں: ’’ میں نے اسے مشورہ دیا کہ مصر کے گرد و نواح ہی میں کہیں اتر جائے اور وہاں رہ کر اپنے مطلوبہ مال کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ میں نے سلامتی کے شہر’’ مصر ‘‘ تک لوٹ جانے تک اس کا بھرپور ساتھ دیا اور پھر ہم جدا ہو گئے، کیونکہ مصر میں خدشہ تھا کہ اسے میری وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔‘‘
زمانے نے کروٹ لی اور میرے حالات میں غیر معمولی تبدیلی آ گئی، کیونکہ ملکی اور حکومتی خدمات میں، میں نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اسی اثناء میں بادشاہ( احمد بن طولون) کا بھی انتقال ہو گیا اور فوج کا سپہ سالار اپنے لڑکے سمیت مارا گیا۔
ہارون بن خمارویہ کی حکومت آ گئی۔ میں ہارون کے مقابلے میں’’ قاسم بن عبید اللہ‘‘ کے ساتھ ہو گیا۔ اس نے مجھے’’ فوج اور دفاع‘‘ کی ذمہ داریاں سونپ کر ہارون کا تخت الٹنے کے لئے کہا۔
اس نے ملکی قائدین اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی جماعت میرے ساتھ کر دی۔ حیرت انگیز بات یہ کہ اس میں ’’لؤلؤ طولونی‘‘ بھی میرے ماتحت تھا اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ کہ تمام ملکی قائدین اور دیگر اصحابِ اثر و رسوخ کے مقابلے میں اس کی حالت انتہائی خستہ تھی۔ اس کی جماعت بھی انتہائی کم افراد اور کم حیثیت لوگوں پر مشتمل تھی۔ ساز و سامان اور سواریوں سے خالی۔
میں نے اس کے گزشتہ احسانات کا بدلہ اتارنے کا اس سے اچھا موقع کوئی اور نہ جانا۔ میں نے اس کی بھرپور مدد کی اور پوری کوشش کی کہ کسی طرح اس کے احوال بھی دیگر ملکی قائدین کے حالات کے برابر ہو جائیں، اس حوالے سے میں نے اس کی بھرپور مدد کی۔
میں اپنی سپاہ کے ساتھ ہارون کے مقابلے کے لیے چل پڑا۔ ابھی میں ملک شام کے قریب بھی نہیں پہنچا تھا کہ ’’ بدر الحمامی‘‘ اور ’’طغج بن جیف،‘‘( ملک شام کے سربرآوردہ راہنما) مجھ سے آ ملے اور اس جنگ میں میرے ساتھ ہو گئے۔ یہاں تک کہ جب ہماری کمر بستہ افواج مصر میں داخل ہوئیں تو وہاں صورتِ حال ہی دوسری تھی۔ بادشاہ ( احمد بن طولون) کے بیٹے شیبان نے ہم سے پہلے اپنے حواریوں کی فوج لے کر ہارون کی سلطنت کا قلع قمع کر کے ہارون کو قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد شیبان خود ہی سلطنت کا نگران بن گیا۔
مگر جب ہمارا لشکر مصر میں پہنچا تو اس کی حالت کو دیکھ کر شیبان سمیت اس کے بہت سے وزرا، امرا اور ملک کی معزز شخصیات نے ہم سے ’’ امان‘‘ کی التجا کی اور خود ہی ہمارے زیر نگیں آ گئے۔ البتہ کچھ عوام نے اور فوج کے گھڑ سواروں کی چند جماعتوں نے مخالفت کی، لیکن ہم نے انہیں سختی سے کچل دیا اور ان میں سے کچھ کو قتل اور کچھ کو گرفتار کر کے نشانِ عبرت بنا دیا۔
پھر میں فسطاط شہر میں پوری شان و شوکت کے ساتھ داخل ہوا اور سارا مال اکٹھا کر لیا۔ طولونیوں کو شہر سے دیہات بھیج دیا، یہاں تک کہ طولونیوں کا کوئی فرد شہر میں باقی نہ رہا۔ یوں بادشاہ( احمد بن طولون) کے خواب کی عملی تعبیر پوری ہو گئی۔ پس اس وجہ سے میں حمد و ثنا کر رہا ہوں اس پاک ذات کی جو جس طرح چاہتا ہے کر دیتا ہے۔ ہم اسی سے بھلائی کا سوال کرتے ہیں اور یہ کہ وہ اپنی رحمت سے ہمارا خاتمہ خیر پر فرمائے۔(آمین)