آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے عمران خان کی جنگ

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں غازی عمران نیازی وہ واحد رہنماء ہیں کہ جنھوں نے اپنے ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے آرمی چیف کی تقرری کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے۔ عمران نیازی کی مہربانی سے یہ پہلا موقع ہے کہ آرمی چیف کی تقرری سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور گلی محلوں میں میں نئے آرمی چیف کے متوقع ناموں پر مباحثے ہو رہے ہیں ۔ اور اپنی پسند کے نام کو غدار و محب وطن بنانے کے لیے دلائل تراشے جارہے ہیں ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ہمارے آئین میں آرمی چیف کی تقرری میں اپوزیشن رہنماء کا کوئی کردار موجود ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ آئین کے تحت صدر کا آرمی چیف کی تقرری میں کوئی کردار نہیں، اپوزیشن سے مشاورت کا بھی کہیں ذکر نہیں ہے ۔گزشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہاہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی پر آئین مشاورت کی اجازت نہیں دیتا لیکن تعیناتی پر مشاورت ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

جہاں تک اس معاملے پرمشاورت کی بات ہے تو یہ ایک غلط روایت ہو گی حکومت کو اس کی ریت نہیں ڈالنا چاہیے کہ سڑک پر بیٹھے ایک شخص سے اس تعیناتی کے لیے غیرآئینی مشاورت کی جائے۔ اگر آج یہ ریت پڑ گئی تو کل کوئی بھی گروہ اپنا جتھہ لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے گا اور اپنی پسند کے آرمی چیف کی تعیناتی کا مطالبہ کرے گا اور یوں فوج کو سیاست زدہ کرنے کی کوشش کرے گا۔

یہ ملکی سلامتی کے اہم ترین ادارے کے خلاف سازش ہے اورعمران خان ملکی معیشت کوتباہ ،سیاست کو پراگندہ کرنے کے بعداب فوج ان کے نشانے پرہے ۔سوال یہ ہے کہ غازی عمران آخر آرمی چیف کی تقرری پرسیاست کیوں کررہے ہیں ؟سب سے پہلی بات یہ ہے کہ عمران خان جانتے ہیں کہ وہ فوج کے بغیرایک دن بھی نہیں چل سکتے ۔2008ء سے اپریل 2022تک عمران خان کی آبیاری کی گئی بیساکھیوں کے سہارے انہیں چلایاگیا ،2014میں مقتدرہ کی چھتری تلے انہوں نے ڈی چوک میں تماشا لگایا۔ثاقب نثار سے سے صادق وامین کے جعلی سرٹیفکیٹ دلوائے گئے ،میڈیا میں ڈنڈے کے زور پر مہاتما کابت تراشا گیا غرضیکہ ان تمام مواقعوں پر ان کی بھرپور سرپرستی کی گئی ۔

عمران خان یہ بھی جانتے ہیں کہ 2018 کے عام انتخابات میں وہ اسی اسٹیبلشمنٹ کے سہارے کامیاب ہوئے تھے بلکہ الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتوں میں توڑپھوڑ کی گئی اورالیکٹیبلز کو دھکیل کر عمران خان کے ساتھ ملایا گیا اور الیکشن والے دن ووٹوں کی گنتی کے دوران آرٹی ایس سسٹم پراسرار طور پر بٹھایا گیا اور محیر العقول طریقے سے تحریک انصاف کا اسلام آباد کا راستہ صاف کیا گیا۔

اس کے بعد عمرانی حکومت قائم کرنے کے لیے آزاد اراکین، مسلم لیگ ق، جی ڈی اے، ایم کیو ایم، بی اے پی وغیرہ کو ہانک کریہ نظام قائم کیا گیا تھا۔ وہ چارسال مقتدرہ کے سہارے پر حکومت کرتے رہے جس کا اعتراف وہ کئی بار کر چکے ہیں۔ سینٹ الیکشن ہو یا چیئرمین سینٹ کا انتخاب ،کوئی بل پاس کروانا ہو یا کوئی قرار داد، یہ سب زور ذبردستی چلتا رہا۔ بقول پرویز الہی ادارے ان کی نیپیاں ہی بدلتے رہے ،غازی عمران کی طرف سے بولا گیا،،ون پیج ،،کاجملہ اب زبان زدعام ہو چکا ہے ۔گزشتہ سال جب فوج نے عمران خان کے مذموم عزائم کو بھانپ کر ان سے علیحدگی اختیار کی اور چھ ماہ پہلے جب عمرانی حکومت کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک پیش ہوئی تو اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے سے ان کادھڑن تختہ ہو گیا۔ ان کا جعلی اقتدار آئینی طریقے سے ختم ہو گیا۔ اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر وہ ایک دن بھی نہیں چل سکے۔ جس کے بعد ان کے اوسان خطا ہو گئے۔

آگے انہیں اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا ہے اس لیے ان کا خیال ہے کہ وہ اپنی پسند کا آرمی چیف لگوا لیں تو شاید انہیں پھر اقتدار مل جائے انہیں پھر،،ابا،،کی سرپرستی حاصل ہو جائے ۔اسی لیے انہوں نے چند دن قبل یہ تجویز دی کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو چھ ماہ کی ایکسٹینشن دی جائے اور اس چھ ماہ میں نئے الیکشن کروائے جائیں اور نئی حکومت نئےآرمی چیف کا تقرر کرے ان کے خیال میں الیکشن میں وہ کامیاب ہو جائیں گے اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ نئے آرمی چیف کا تقرر کریں مگر تین سال قبل جب انہیں آرمی چیف کے تقرر کا موقع ملا تو وہ یہ اعزاز حاصل نہیں کر سکے اور انہوں نے نئے آرمی چیف کی تقرری کی بجائے جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی توسیع دے دی۔یوں غازی عمران نیازی اس اہم موقع پرسرینڈرکرگئے ۔

یہ بات اب تواتر کے ساتھ ثابت ہو چکی ہے کہ عمران نیازی اپنے اقتدار کی دس سے پندرہ سالہ منصوبہ بندی کرچکے تھے ان کا خیال تھا کہ اپنی پسند کے آدمی کو آرمی چیف لگا کر آئندہ الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کریں گے اور اگر زیادہ شور مچا تو وہ صدارتی نظام قائم کر دیں گے،اس وقت اپوزیشن جماعتوں کو سربراہوں کو جھوٹے مقدمات بنا کر جیلوں میں ڈالیں گے اور خود آمر مطلق بن کر حکمرانی کریں گے مگر جب ان کے منصوبوں اور امیدوں پر پانی پھر گیا تو وہ فوج اور اس کے اعلی افسران کے خلاف میدان میں آگئے کبھی وہ اداروں کے نیوٹرل ہونے کو برا کہتے ہیں ، کبھی ریاستی اداروں کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہیں ، تو کبھی ملکی سلامتی کے اداروں کے سربراہوں کے خلاف سوشل میڈیا ٹرینڈز چلواتے ہیں۔

ایک طرف تو عوامی سطح پر ملکی اداروں اور سیاستدانوں پر تنقیدکرتے تو دوسری طرف اندرون خانہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک چینل مذاکرات بھی کرتے ہیں ،ان کے پائوں پڑتے ہیں ان کی منتیں ترلے کرتے ہیں جب ان کی بات نہیں مانی جاتی تو وہ اسٹیبلشمنٹ اور ملکی سلامتی کے حساس ترین اداروں کے خلاف جھوٹ پر مبنی مہم شروع کردیتے ہیں اور ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو بھڑکاتے ہیں ۔

ان کی اس تمام ترجدوجہد کا ایک ہی مقصد ہے کہ فوج ان کی دوبارہ سے سرپرستی شروع کردے ۔ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی سیاسی جماعت نے آرمی چیف کی تقرری کو اس طرح اور اس انداز میں متنازع بنانے کی کوشش کی ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر باجوہ کو بھی میاں نوازشریف نے آرمی چیف مقرر کیا تھا اگر یہ دونوں جنرل اچھے تھے اور انہوں نے بھرپور طریقے سے عمران خان کو سپورٹ بھی کیا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف جس کوآرمی چیف نامزد کریں گے وہ بہترین افسر نہیں ہوں گے؟

فوج کا ہر جوان ملک و ادارے کے ساتھ مخلص ہے اوراس کی کمٹمنٹ واضح ہے ۔جس جرنل کو بھی آرمی چیف تعینات کیاجائے وہ اپنے حلف سے روگردانی نہیں کرے گا فوج کسی ایک افسر یا جرنل کا نام نہیں بلکہ ادارے کانام ہے۔ جب فوج فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی توعمران خان یہ کیوں مطالبہ کررہے ہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت کرے ۔اور ان کی ہمنوا بن جائے ۔اور ان کے ناجائز کاموں کی سرپرستی کرے ۔

آج عمران خان میرٹ کے خوش نما نعرے کی آڑمیں آرمی چیف کی تقرری کی بات کرکے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں ان کے دورحکومت میں جس طرح میرٹ کی د ھجیاں اڑائیں گئیں یا ان کی صوبائی حکومتیں اڑا رہی ہیں اس کی تو مثال ہی نہیں ملتی وہ کس منہ سے میرٹ کی بات کررہے ہیں ۔

آرمی چیف کی تقرری کا آئین میں جو طریقہ کار ہے اس کے مطابق نئے چیف کا تقرر ہو گا اس میں خان صاحب کو مسئلہ کیا ہے؟ وہ کیوں اس تقرری کے لیے اپنا زور لگا رہے ہیں اس کے پیچھے راز کیا ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ جو شخص اپنے اوپر حملے کی ایف آئی آر بھی درج نہ کروا سکے اسے کیسے اختیار دیا جائے کہ وہ ملک کے سب سے مضبوط ادارے کے سربراہ کی تقرری کے لیے مشاورت میں شامل ہو؟

اس وقت عمران خان نے اپنا تمام ترسیاسی بیانیہ آرمی چیف کی تعیناتی سے منسلک کر دیا ہے ۔ سائفر کہانی ،امریکی غلامی اور نئے الیکشن کے نعرے پس منظرمیں چلے گئے ہیں ۔عمران خان کا نومبر میں لانگ مارچ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ صرف آرمی چیف کی تقرری پر سیاست کر رہے ہیں،وہ اپنی پسند کے آرمی چیف کی تعیناتی سے زیادہ نئے چیف کی تقرری کو متنازع بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔اس سے ان کا مقصد فوج کو کمزور کرنا اور ان میں تقسیم پیدا کرنا ہے یہ ان کے عالمی سہولت کاروں کا ایجنڈہ ہے ۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button