تحریک انصاف سیاسی جماعت نہیں ایک کلٹ ہے
ملتان کی نشست سے شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی کو شکست دینے والے علی موسی گیلانی قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ میرا مقابلہ کسی نظریے سے نہیں بلکہ جھوٹ سے تھا واقعی علی موسی گیلانی نے یہ بات درست کہی ہے کیوں کہ اس سے پہلے الیکشن کام کارکردگی، نظریے یا منشور پر لڑے اور جیتے تھے مگر پی ٹی آئی کا جب سے ملکی سیاست میں عمل دخل بڑھا ہے اس کے بعد سیاست کا رخ ہی تبدیل ہو گیا ہے اب الیکشن نظریے یا کارکردگی کی بجائے سوشل میڈیا اور پروپیگنڈہ کی بنیاد پر لڑا جاتا ہے۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ تقریبا ساڑھے چار سال کی بدترین حکومت کے باوجود عمران خان دوبارہ سے عوام میں پذیرائی حاصل کر رہے ہیں اور ان کی ساری پذیرائی کے پیچھے اسی سوشل میڈیا اور جھوٹ کے ہتھیار کا کمال ہے اسی پروپیگنڈے کا اثرہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے پہلے پنچاب کی پندرہ نشستوں اور اب قومی اسمبلی کی چھ نشستوں پر عمران خان نے کامیابی حاصل کی ہے ہمارے عوام اگر کارکردگی ،نظریے یا شعور کی بنیاد پر فیصلہ کرتے تو قطعا پی ٹی آئی کو ووٹ نہ دیتے تو اس سے ثابت ہوا کہ جھوٹ کو شکست دینا اتنا آسان نہیں وہ بھی جب منظم جھوٹ بولاجائے۔
یہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ اس جنریشن وار کا حصہ ہے جس کو آپ ففتھ یا سکستھ جنریشن وار کا نام دے سکتے ہیں اور اس میں خطرناک بات یہ ہے کہ ایک قومی سیاسی جماعت کی طرف سے اس ہتھیار کو استعمال کرنا یہ ریاست کے لیے چیلنج بنتا جا رہا ہے اس طریقہ واردات کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایسی اصلاحات اور متعارف کروائی جائیں جو نہ صرف مبہم اور غیر واضح ہوں بلکہ کوئی ان سے اختلاف کرنے کی جسارت نہ کر سکے۔
یہ ایسی موم کی ناک ہے جسے اپنی مرضی سے کسی طرف بھی موڑا جا سکتا ہے اور دوسری طرف آپ کے بدترین دشمن بھی اس کی مخالفت نہیں کر سکتے۔ اس کی تازہ مثال معروف صحافی اینکر پرسن ارشدشریف کے قتل کا واقعہ ہے ،اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ایک مرتبہ پھر سے تحریک انصاف منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہے عمران خان اوران کے فالورز تین دن سے ارشدشریف کی لاش پر سیاست کر رہے ہیں اور اس کی آڑ میں وہ اداروں اور ریاست کے خلاف بدترین مہم چلارہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے فالورز کی طرف سے بے بنیاد اور نہایت گھٹیا الزامات کی سیاست کی جا رہی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے وہ ارشد شریف کی لاش کی تنہا وارث ہے حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ارشدشریف صرف اور صرف ایک بہترین صحافی تھے وہ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار نہیں تھے۔ عمران خان کی سیاست کا بدترین رخ دیکھنا ہو تو اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف ان کے سوشل میڈیاکی طرف سے ارشد شریف کے قتل پرسوگ اور ماتم کے ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں اور اس تناظر میں انہی دنوں میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی طرف سے دیوالی کا کیک کاٹے جانے کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے مگر دوسری طرف عمران خان اسی سوگ اور ماتم کے دنوں میں لانگ مارچ کا اعلان کر رہے ہیں مگر سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بات تک نہیں کی جا رہی ہے۔ حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ عمران خان پہلے بھی لاشوں پر سیاست کرتا رہا اور اب بھی یہی کر رہا ہے۔
ارشد شریف کے واقعہ کو بنیاد بنا کر لانگ مارچ کا اعلان دراصل گدھ بن کر لاش کو نوچنے کے مترادف ہے۔ اس مظلوم لاش پربھی وہ مفادات سمیٹنے سے باز نہیں آرہے ہیں دراصل عمران خان سیاسی گدھ کا روپ دھار چکا ہے جس کا سیاسی اور اخلاقی میدان میں مقابلہ کرنا مشکل ہے۔ ایسے شخص سے کسی بھی حال میں انسانیت، رواداری اور اخلاقیات کی توقع رکھنا فضول ہے۔ پی ٹی آئی کو اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ معروف شخصیات کے جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس بنا کر عمران خان کے کارناموں کے جھوٹے قصیدے بیان کیے جاتے ہیں پھر اس جھوٹ کو اتنا پھیلایا جاتا ہے کہ عام آدمی کے لیے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس جھوٹ کو پھیلانے کے لیے انہوں نے سرکاری خزانے پر سینکڑوں سرپھرے بھرتی کیے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف واقعی میں اب ریاست مخالف جماعت کاروپ دھار چکی ہے اور عمران نیازی نے اپنی محنت سے ایسے انتہا پسند قسم کے لوگ تیار کیے ہیں جن میں بلوچ انتہاپسند، سندھی قوم پرست یا منظورپشتین کے چاہنے والوں اور عمران نیازی کے ماننے والوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں رہاہے۔ میں اس موقع پرپھر ارشد شریف کے قتل کی بات کروں گا کہ ارشدشریف کاقتل ملک سے ہزاروں کلومیٹر دور افریقہ کے ایک دوردراز ملک میں ہوا جس ملک میں قتل ہوا اس کی پولیس کی طرف سے ابتدائی طور پر قتل کے واقعہ کی ذمے داری بھی قبول کر لی گئی ہے، مگر تحریک انصاف سوشل میڈیا اور عمران نیازی نے نہایت چالاکی سے اس قتل کا سارا ملبہ ریاست پاکستان اور حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
یہ وہ بدترین پروپیگنڈہ اور جذباتی مہم ہے جس میں قوم کے نوجوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ عمران نیازی سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ ان کے اپنے دور حکومت میں جج ارشدملک ،جج وقارسیٹھ ،علامہ خادم حسین رضوی ،ڈاکٹر عامرلیاقت کی ناگہانی موت ہوئی،ان تمام افراد کی موت ایک معمہ ہے، ان افراد کی ناگہانی اموات پرآج بھی تحقیقات کی جائیں تو بہت کچھ آشکار ہو جائے گا۔ اسی طرح مولانا سمیع الحق، ڈاکٹرعادل جیسے جید علماء کوشہید کیا گیا مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ ہوا مگر اس وقت عمران نیازی نے اس بے تابی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کا اظہار وہ اس وقت کر رہا ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ تمام افراد شعبہ صحافت سے وابستہ نہیں تھے مگر عمران نیازی اور ان کے ماننے والے بتائیں گے کہ عمران نیازی کا دور حکومت اہل صحافت کے لیے تو بدترین دور تھا۔
ان کے دور حکومت میں صحافیوں پر حملے کیے گئے ان پر تشدد کیا گیا انہیں اغواء کر کے ٹارچر کیا گیا صحافیوں کے گھروں اور دفاتر پر پتھرائو کیا گیا صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کے خلاف غلیظ ٹرینڈ چلائے گئے متعدد صحافی عمرانی فسطائیت کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے سینکڑوں بے روزگار ہوئے متعدد ٹی وی چینلز اور اخبارات بند ہوئے، صحافیوں کو جکڑنے کے لیے کالے قوانین بنائے گئے نیازی کے وزراء نے سرعام صحافیوں پرہاتھ اٹھایا مگر اس وقت آپ کے پیٹ میں تو مروڑ نہیں اٹھا کیوں؟
کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ اس وقت آپ کے سیاسی مفادات اسی کردار کے ساتھ وابستہ تھے اور اب کی بار مفادات موجودہ سیاسی کردار سے وابستہ ہیں؟ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف واقعی سیاسی جماعت ہے یا کلٹ؟ عمران خان کے ماننے والے اب انہیں مرشد لکھنا شروع ہو گئے ہیں، آپ انہیں اگر کوئی بات سمجھانے کی کوشش کریں گے تو وہ لڑ پڑیں گے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ عمران نیازی جو کہہ رہا ہے وہی حق اور سچ ہے وہ حق اور باطل کا تعین اس طرح کرتے ہیں کہ عمران نیازی کس طرف کھڑا ہے؟
ان میں اتنی ہمت اور صلاحیت نہیں کہ وہ عمران خان کی غلط بات کو غلط کہہ سکیں۔ عمران کے ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جو بھی اس کامخالف ہے وہ چور اور کرپٹ ہے، غدار اور امریکی ایجنٹ ہے۔ حالانکہ فارن فنڈنگ اور توشہ خانے میں ثابت ہوا کہ عمران نیازی خائن، بددیانت،کرپٹ اور جھوٹا ہے جبکہ آڈیو لیکس میں اس کے تمام ترسازشی بیانیے کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے ہیں۔ مگر اس کے ماننے والوں کو اس کی پرواہ نہیں ہے آپ اس طرح کے درجنوں فیصلے کر لیں۔ آڈیو وڈیو لیکس کر لیں۔
پی ٹی آئی ایک جماعت نہیں اک کلٹ ہے ان کے سیاسی کارکن نہیں بلکہ عقیدت مند ہیں خان ان کے نزدیک انسان نہیں فرشتہ ہے جو کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی سوچ کی حامل جماعت اور کارکنوں سے ریاست نے کیسے نمٹنا ہے؟ انہیں کیسے راہ راست پر لانا ہے کیا ان کے لیے بھی کوئی آپریشن راہ راست ہے یا اسی طرح وہ دندناتھے پھرتے رہیں گے۔
ریاست اور ریاستی اداروں پر حملہ آور ہوتے رہیں گے؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ عمران خان کے لانگ مارچ کی ٹائمنگ ہمیشہ اہم رہی ہے اس وقت وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف سعودی عرب کے دورے پر ہیں اور سعودی عرب سے بھاری سرمایہ کاری کی خبریں آ رہی ہیں پھر شہبازشریف نومبر کے پہلے ہفتے میں چین کے دورے پر جا رہے ہیں جہاں سی پیک طرز پر بڑی سرمایہ کارکی توقعات وابستہ ہیں اور عمران نیازی ایک مرتبہ پھر سے لانگ مارچ کی کال دے چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان ایک مرتبہ پھر کس کے اشارے پر ملک اور ریاست کے خلاف لانگ مارچ کرنے جا رہے ہیں؟