نمونہ اسلاف، جمیع اوصاف کے مالک شفیق استاذ

انسان کی زندگی پر کسی نہ کسی شخصیت کا گہرا اثر ہوتا ہے، یہ شخصیت اس کے والد گرامی، استاذ، شیخ و پیر کی بھی ہو سکتی ہے اور کوئی معروف شخصیت بھی ہو سکتی ہے۔ انسان جس شخصیت سے متاثر ہوتا ہے دھیرے دھیرے اس کے رنگ میں رنگتا چلا جاتا ہے۔ میں نے اسکول، مدرسہ اور یونیورسٹی تک کی تعلیم میں تقریباً ایک سو اساتذہ سے پڑھا ہے، بلاشبہ تمام اساتذہ کرام صاحب علم، اپنے فن میں ماہر اور قابل احترام تھے، مگر میری طبیعت پر ایک استاذ کا گہرا اثر ہے، میں نے برسوں پہلے جو سیکھا، وہ اب بھی میرے دل پر نقش ہے کیونکہ اس سیکھنے کا تعلق کتاب سے زیادہ تربیت سے تھا۔ کتاب والا علم وقت کے ساتھ ساتھ ناپختہ ہوتا جاتا ہے تاہم تربیت سے متعلق جو بات آپ نے عملی طور پر سیکھ لی وہ کبھی بھول نہیں سکیں گے۔ خیرالمدارس ملتان، دارالعلوم کراچی اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں شیخ الاسلام حضرت اقدس مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اور بیرون ممالک سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے اساتذہ سے براہ راست پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے مگر جو تربیت اپنے شفیق استاذ حضرت مفتی ذکاء اللہ صاحب سے حاصل ہوئی وہ کسی دوسری جگہ نصیب نہ ہوئی۔ ایک مضمون زیادہ تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے اس لئے اپنی یاد داشتوں میں سے چند واقعات ذکر کرنے کر اکتفا کروں گا، ملحوظ خاطر رہے یہ کوئی ادبی کالم نہیں بلکہ ایک شاگرد کے اپنے استاذ صاحب سے متعلق جذبات ہیں جسے تحریر کی شکل دی گئی ہے۔

ہمارے شفیق استاذ صاحب بہترین مدرس، فقہی امور پر مہارت، داعی، سرپرست و منتظم جیسے جمیع اوصاف کے مالک ہیں، استاذ صاحب طالب علموں کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں، بالخصوص مجھ جیسے طلباء جن کی سرپرستی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ فرید ٹاؤن میں جب دارالعلوم قائم ہوا تو ہم اولین طالب علموں میں سے تھے، پہلی ملاقات میں استاذ صاحب نے پوچھا والد صاحب کیا کرتے ہیں؟ عرض کیا وفات پا چکے ہیں۔ اس وقت خاموش ہوگئے، لیکن انہوں نے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھا۔ اور میری مکمل سرپرستی کی، ماضی کے اوراق پلٹتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ اگر میرے والد گرامی بھی حیات ہوتے تو شاید ایسی سرپرستی و رہنمائی نہ کر پاتے۔ ابھی دوسرے درجہ میں تھا کہ والدہ ماجدہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں، رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا۔ مجھ پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی کیونکہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور بظاہر والدہ کا سہارا بھی چھن چکا تھا، میں گاؤں چلا گیا تو استاذ صاحب نے مدرسہ کے اساتذہ کو تعزیت کیلئے بھیجا، انہوں نے مجھے حوصلہ دیا، جب تین چار دن کے بعد مدرسہ واپس گیا تو استاذ صاحب نے بلا کر حوصلہ دیا اور ایک جملہ فرمایا جو مجھے آج بھی ازبر ہے کہ ’’یتیم نابالغ بچے ہوتے ہیں تم بڑے ہو، خود کو سنبھالو اور اپنی تعلیم پر توجہ دو‘‘ اس سے پہلے میں خود کو لاچار سمجھ رہا تھا استاذ صاحب کی ہدایت کے بعد توانائی بحال ہو گئی اور بکھرنے سے بچ گیا۔

ساہیوال سے ملتان اور پھر کراچی میں استاذ صاحب نے ہی بڑے درجات کی تعلیم کیلئے بجھوایا تھا، ورنہ ہم جیسے دیہاتی اس قابل کہاں تھے۔ کراچی بجھوانے کے بعد استاذ صاحب نے مکمل سرپرستی کی، خرچہ بھی ارسال کرتے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ کراچی میں تعلیم کے دوران استاذ صاحب سے ملنا آیا تو واپسی پر استاذ صاحب نے کچھ پیسے دیئے اور تاکید کی ان پیسوں کوگناہ کے کاموں میں خرچ نہیں کرنا۔ اس نصیحت کا میرے اوپر اس قدر اثر ہوا کہ گناہ کے کاموں میں پیسے خرچ کرنے سے پہلے یہ نصیحت یاد آ جاتی ہے۔ میری طرح بہت سے طلباء کو اس بات پر ناز ہے کہ استاذصاحب ان کے سرپرست ہیں۔

گفتگو کے دوران الفاظ کا چناؤ اور ادائیگی میں محتاط رویہ درحقیقت میں نے استاذ صاحب سے سیکھا، جب مجھے اخبار کی ادارتی ٹیم میں شامل کیا جانے لگا تو صحافت کے استاتذہ نے بتایا کہ ادارتی صفحات میں الفاظ کا چناؤ اور انتہائی محتاط رویے کی ضرورت ہوتی ہے، انہوں نے سمجھانے کیلئے کئی مثالیں بھی پیش کیں، لیکن یقین جانئے مجھے ادارتی پالیسی سمجھنے میں کوئی دقت نہین ہوئی، میں نے ابتدائی دنوں میں ہی محتاط رویہ اپنا کر ثابت کر دیا کہ ادارتی ٹیم کیلئے اہل ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ صرف یہ تھی کہ استاذ صاحب کے پاس رہتے ہوئے میں الفاظ کا چناؤ اور محتاط رویہ بہترین انداز میں سیکھ چکا تھا۔

استغنا کیا ہے، اس کو عملی طور پر دیکھنا ہو تو چند دن استاذ صاحب کی صحبت میں گزاریں، کم وسائل میں رہتے ہوئے عمدہ لباس اور استعمال کی ہر چیز سے نفاست کو نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کے اعلیٰ ذوق اور معیار کی مثال پیش کرنا مشکل ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ استاذ کے تعلق والے کچھ لوگ محض چائے پینے کیلئے حاضر ہوتے تھے ان کا کہنا تھا کہ جیسی چائے استاذ صاحب کے ہاں سے ملتی ہے ویسی چائے کم ہی پینے کو ملتی ہے۔استاذ صاحب کی طبیعت میں نمائش اور تصنع کا تصور نہیں ہے، بہت سادہ اور نفیس طبیعت کہ جو انسان ایک بار مل لے وہ گرویدہ ہو کر رہ جائے۔ استاذ صاحب کبھی بھی جاہ طلب نہیں رہے مگر ان کی خود داری اور کام نے لوگوں کو ان کے انتخاب پر مجبور کیا۔
معاملات کی صفائی میں اپنے شفیق استاذ صاحب سے زیادہ کسی کو محتاط نہیں دیکھا، 25 برس قبل مجھے حضرت استاذ صاحب کی خدمت کا اعزاز حاصل ہوا، مہمانوں کی تواضع کیلئے حضرت استاذ صاحب اپنی جیب سے خرچ ادا کرتے تھے، طریقہ کار یہ تھا کہ کچھ پیسے پہلے دے دیتے اور مہینے کے اختتام پر میں ایک کاغذ پر حساب لکھ کر دے دیتا، استاذ صاحب درج حساب کے مطابق مجھے پیسے دے دیتے۔ حضرت استاذ صاحب کے گھر کیلئے جب کبھی مدرسہ سے کھانا جاتا تو مجھے ہدایت تھی کہ مہینے میں جتنے دن کھانا جائے لکھ کر رکھ لیا کرو، کیونکہ مدرسہ کے مہتمم ہونے کے باوجود وہ اس کھانے کی ادائیگی کرتے تھے۔ ایک بار فرمانے لگے کہ گھر کھانا پہنچا دینا اور یاد سے لکھ لینا، پھر فرمایا کہ اگر تم نے لکھنے میں کوتاہی کی اور قیامت کے دن مجھ سے اللہ نے پوچھ لیا تو میں تجھے آگے کر دوں گا۔ مجھے آج بھی یہ جملہ یاد ہے، یہ جملہ میرے لئے زندگی کا اہم سبق بھی ہے کہ اجتماعی معاملات میں کس طرح شفافیت کو برقرار رکھنا ہے۔

شفیق الامۃ حضرت پیر عزیز الرحمان ہزاروی رحمہ اللہ کے ہاں استاذ صاحب کو خاص مقام حاصل تھا، مسجد صدیق اکبر (راولپنڈی) اور خانقاہ جامعہ دارالعلوم زکریا (ترنول، اسلام آباد) میں حضرت استاذ کی قدر و منزلت کا چشم دید گواہ ہوں۔ حضرت ہزاروی ہمارے استاذ صاحب کو اپنے قریب بٹھاتے اور ’’مفتی جی‘‘ یا ’’مفتی صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب فرماتے۔ حضرت ہزاروی کے ہاں استاذ صاحب کی تکریم دیکھ کر روحانی تسکین ملتی۔ حضرت ہزاروی کے ہاں مہمانوں کے کھانے کا خاص اہتمام کیا جاتا، جبکہ ان کا پرہیزی کھانا گھر سے آتا تھا جس میں زیادہ تر کدو یا دوسری سبزی ہوتی، حضرت ہزاروی اپنے کھانے میں سے استاذ صاحب کو پیش کرتے، دور دراز سے تشریف لانے والے مہمان اپنے ہمراہ حضرت ہزاروی کیلئے تحائف یا کھانے کی چیز لاتے، حضرت ہزاروی کھانے کی چیز کو اسی وقت دسترخوان پر موجود مہمانوں میں تقسیم کر دیتے، ایک بار ڈیرہ اسماعیل خان سے آئے مہمان نے وہاں کا مشہور حلوہ ہدیہ کیا، مگر حضرت ہزاروی نے وہ مہمانوں میں تقسیم کرنے کی ہدایت کی اور ساتھ فرمایا کہ یہ بہترین حلوہ ہے، ایسے مناظر میں نے کسی دوسری جگہ نہیں دیکھے۔ میں نے حضرت استاذ کی طبیعت پر دو شخصیات کی تربیت کا گہرا اثر محسوس کیا، ایک فقیہہ عصر حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ اور دوسرے شفیق الامۃ حضرت عزیز الرحمان ہزاروی رحمہ اللہ۔

چند روز پہلے برادر عزیز حماد سے معلوم ہوا کہ حضرت ہزاروی کے جانشین قاری عتیق الرحمان صاحب کے اصرار پر حضرت استاذ صاحب نے حضرت ہزاروی رحمہ اللہ کے روحانی سفر کو آگے بڑھانے کیلئے بیعت کا سلسلہ شروع کیا ہے، مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی، میںگزشتہ 15 برسوں سے اسلام آباد میں مقیم ہوں مگر میری خواہش ہے کہ اپنے بچوں کو تربیت کیلئے استاذ صاحب کے پاس ساہیوال بھیجوں، نہ صرف میری خواہش ہے بلکہ میری اہلیہ کا بھی اصرار ہے کہ جب بچے میٹرک کر لیں تو انہیں ساہیوال استاذ صاحب کے پاس بھیجنا ہے۔ ساہیوال اور گردونواح میں بسنے والے احباب کیلئے نادر موقع ہے بالخصوص وہ لوگ جو اپنے بچوں یا خود کی دینی و روحانی تعلیم تربیت کے حوالے سے فکر مند تھے، وہ استاذ صاحب سے روحانی تعلق جوڑ کر تعلیم اور تربیت حاصل کر سکتے ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button