لوگوں کو خیر خواہی کا احساس دلائیں

جتنا آپ کا دل لوگوں کے لئے خیر سے بھرا ہوا ہو گا، اتناآپ ان کے ساتھ معاملہ کرنے پر سچے ہوں گے اور جتنا لوگوں نے آپ کی محبت کو محسوس کیا اتنی ہی آپ کے ساتھ محبت کریں گے۔

ایک لیڈی ڈاکٹر کا کلینک تھا، اس کا کلینک ہمیشہ عورتوں سے بھرا رہتا، اور بیمار عورتیں اس کے کلینک میں آنے کی زیادہ رغبت رکھتی تھیں، اس لئے کہ ہر ایک عورت یہ سمجھتی ہے کہ یہ ڈاکٹر عورت میری مخلص دوست ہے، یہ ڈاکٹر عورت ایک مہارت استعمال کرتی تھی جس کی وجہ سے عورتیں اس کے علاوہ اور کہیں نہیں جاتی تھیں۔

اس ڈاکٹر عورت کی یہ مہارت تھی کہ اس نے اپنی سیکرٹری سے کہہ رکھا تھا کہ اگر کوئی عورت کسی بھی وجہ سے فون کر کے میرا پوچھے تو اس کی خیر مقدمی کر کے اس سے کہنا پانچ منٹ بعد فون کرنا، ان پانچ منٹ کے درمیان فون کرنے والی عورت کی فائل لا کر مجھے دینا جس میں اس کی معلومات لکھی ہوئی ہوں….نام….بچے….نوکری….بیماری تو ڈاکٹر کی سیکرٹری ایسا ہی کرتی، ڈاکٹر عورت کے فون کرنے سے پہلے سب معلومات دیکھ لیتی کہ اس عورت کا کیا نام ہے شادی کی ہوئی ہے یا نہیں یا کتنے بچے ہیں کون سی بیماری ہے تو جب مریض عورت دوبارہ فون کرتی تو یہ ڈاکٹر اس کا نام پورا لے کر پکارتی پھر بیماری کی حالت پوچھتی پھر سب سے چھوٹے بچے کا نام لے کر اس کا حال پوچھتی تو وہ عورت یہ سمجھتی کہ یہ ڈاکٹر میرے ساتھ دوسروں سے زیادہ محبت و الفت رکھتی ہے حالانکہ اتنی عورتیں اس کی کلینک میں آتی ہیں پھر بھی میری بیماری، میری نوکری، میرے بچے سب کو نہیں بھولی تو یہ عورت اس کے کلینک میں آنا زیادہ پسند کرتی ہے، دیکھا کیسے لوگوں کے دلوں کو ہاتھ میں لینا نہایت آسان ہے۔

ایسے بھی کوئی حرج نہیں کہ اگر آپ کسی کو کہہ دیں میں تم سے محبت کرتا ہوں چاہے والد ہو والدہ ہو….بیوی….بچے….دوست….پڑوسی ہو….محبت و الفت کا شعور و احساس اپنے اندر دبا کر مت رکھو جس سے محبت ہو اسے کہہ دو: میں تم سے محبت کرتا ہوں بلکہ اگر کوئی آپ کا مخالف بھی ہو اسے بھی کہہ دو کہ آپ میرے دل کے نزدیک ہیں مجھے آپ سے محبت ہے، اس بات سے جھوٹ تو نہیں بنے گا کیونکہ آپ نے سچ کہا یہ شخص کئی لاکھ یہودیوں سے تو آپ کے نزدیک محبوب ہے…ایسے ہے نا؟…عقلمند بنو…..

میں ایک بار عمرہ کیلئے گیا، طواف کے دوران سب مسلمانوں کیلئے دعا خیر کی خاص طور پر یہ دعا کثرت سے کی کہ اے اللہ میری اور میرے احباب کی مغفرت فرما دے۔ جب میں عمرہ سے فارغ ہوگیا خدا کا شکر ادا کیا کہ آسانی سے عمرہ ہو گیا، پھر میں نے ہوٹل میں جا کے آرام کرتے وقت اپنے موبائل سے یہ میسج لکھا میں ابھی عمرہ سے فارغ ہوا اور عمرہ کے دوران سب احباب کیلئے دعا خیر کی، اور میں آپ کو بھی نہیں بھولا، اللہ آپ کو ہر شر سے محفوظ رکھے، یہ میسج لکھ کر جتنے میرے موبائل میں نمبر محفوظ تھے ان سب کو میں نے یہ میسج بھیج دیا میرے موبائل میں تقریباً پانچ سو نام تھے، سب کو بھیجا،مجھے پتہ نہیں تھا کہ جن کو میسج بھیجا ان پر اور ان کے دلوں میں اتنا اثر ہوگا، بعض نے اس میسج پر جواب دیا

پہلے نے لکھا….اللہ کی قسم
آپ کے میسج کو پڑھ کر مجھے رونا آ گیا اور میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے دعا میں یاد رکھا۔

دوسرے نے لکھا:اللہ کی قسم شیخ صاحب پتہ نہیں کہ آپ کو کیا کہوں لیکن جَزَاکَ اللہُ خَیرًا کہ آپ نے دعا میں مجھے یاد رکھا۔

تیسرے نے لکھا: اللہ سے چاہتا ہوں کہ آپ کی دعا قبول کرے، میں بھی آپ کو دعائوں میں نہیں بھولوں گا۔

حقیقت میں ہم ایسی چیز کے ضرورت مند ہیں کہ ہم کچھ دنوں بعد لوگوں کو یاد دلائیں کہ ہم انہیں نہیں بھولے اور دنیاوی مصروفیات کے باوجود ان سے محبت قائم ہے، آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں کہ مثلاً آپ اپنے احباب کو یہ میسج بھیجیں: میں نے آپ کے لیے اذان و اقامت کے درمیان دعا کی ہے، یا جمعہ کے آخری وقت میں دعا کی ہے، اگر آپ یہ کہیں کہ یہ ریاکاری بن سکتی ہے تو میں آپ کو کہوں گا کہ اگر آپ کی دعا کے وقت نیت صحیح ہوگی تو یہ میسج ان شااللہ ریاکاری میں شمار نہیں ہو گا،بلکہ ایسی بات سے الفت و محبت زیادہ ہوگی۔

میں ایک بار طائف کے شہر میں تقریر کیلئے گیا، وہاں اکثر نوجوان سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔ تقریر میں اکثر نوجوان وہ تھے جن میں بظاہر کوئی اچھائی نہیں تھی۔ بعض کچھ ایسے تھے جو وعظ میں شریک بھی نہیں ہوئے،اپنے کھیل میں مصروف رہے جب تقریر ختم ہوئی تو کئی نوجوان آگے آئے مجھے سلام و مصافحہ کرنے لگے ان کے درمیان ایک نوجوان تھا جس نے بہت عجیب طریقہ سے بال کٹوائے ہوئے تھے اور بہت ٹائٹ پینٹ پہنی ہوئی تھی،جب اس نے مجھے مصافحہ کیا تو میں نے اس کے ہاتھ کو ہلا کر کہا میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ تقریر میں شریک ہوئے ہیں۔ پھر میں نے کہا کہ ماشاء اللہ آپ کے چہرے سے نظر آ رہا ہے کہ آپ دین کے داعی (دعوت دینے والے) ہیں یہ نوجوان مسکراتا ہوا چلا گیا…..دو ہفتے بعد اچانک میرے موبائل پر فون آیا میں نے اٹھایا اس نے کہا:ہاں شیخ صاحب مجھے پہچانا؟ میں وہ ہوں جس کو آپ نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ تمہارے چہرے سے لگ رہا ہے کہ دین کہ داعی ہو۔ اللہ کی قسم میں ان شاء اللہ دین کا داعی بنوں گا اس کے بعد وہ مجھے اپنا احساس بتانے لگا کہ میرے کہنے پر اس کے ساتھ کیا ہوا۔

دیکھا لوگوں پر محبت و الفت کے ساتھ بات کرنے سے کیسی اچھی تاثیر پڑتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اچھے اخلاق و مہارت سے لوگوں کے دل اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بہت جلیل القدر صحابی تھے آپس میں نیکی کے کاموں میں مقابلہ کرتے تھے اور حضرت ابوبکر ہمیشہ حضرت عمر سے آگے نکل جاتے، اگر حضرت عمرؓ نے نماز کے لئے جلدی کی تو دیکھتے کہ حضرت ابو بکرؓ ان سے بھی جلدی پہنچ گئے، اگر کسی مسکین کو کھانا کھلاتے تو دیکھتے کہ حضرت ابوبکرؓ اس کو ان سے پہلے کھانا کھلا گئے۔

ایسے ہی ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صدقہ اکٹھا کرنے کیلئے فرمایا کیونکہ اس وقت مسلمانوں پر فقر و فاقہ تھا، قدرتی طور پر اس وقت حضرت عمرؓ کے پاس کچھ مال تھا اور انہوں نے سمجھا کہ حضرت ابوبکرؓ سے آج میں اس نیکی میں آگے نکل جائوں گا، حضرت عمرؓ گئے گھر سے اپنا آدھا مال لے کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا، سب سے پہلی بات آپ نے حضرت عمرؓ سے کونسی کی کہ کتنا مال لے آئے ہو؟ یا کون سا مال لے آئے ہو؟ نہیں بلکہ آپ نے ایسے کلمات فرمائے جن سے حضرت عمرؓ کو یہ محسوس ہوا کہ وہ آپ کے نزدیک زیادہ محبوب ہیں،آپ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا۔ تم نے اپنے گھر والوں کے لئے کیا باقی چھوڑا؟

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:یا رسول اللہ! جتنا لے آیا ہوں،اتنا اپنے گھو والوں کے لئے بھی باقی چھوڑ آیا ہوں، حضرت عمرؓ آپ کے پاس انتظار میں بیٹھ گئے، دیکھوں حضرت ابوبکرؓ کتنا مال لے آتے ہیں، حضرت ابوبکرؓ مال لے کر پہنچ گئے اور آپ کی خدمت میں پیش کیا، اب حضرت عمرؓ دیکھ رہے ہیں کہ شاید اس نیکی میں میرا نام آگے نکل جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا اے ابو بکر اپنے گھر والوں کے لئے کتنا مال باقی چھوڑ آئے ہو؟حضرت ابو بکر نے فرمایا: گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں یعنی کچھ مال نہیں چھوڑا سارا مال لے آیا ہوں۔یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اس میں کوئی شک نہیں کہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آگے نہیں نکل سکتا۔

صحابہ کو یہ محسوس ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک سے کہ وہ آپ کے نزدیک محبوب ہیں اور آپ صحابہ سے محبت رکھتے ہیں تو صحابہ اپنی جانیں آپ کے لئے قربان کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔
ایک دن آپ نماز پڑھا رہے تھے اور نماز میں تھوڑی جلدی کی حتیٰ کہ ایسے لگا کہ نماز بہت مختصر پڑھائی ہے، جب نماز ختم ہوئی تو آپ نے صحابہ کو دیکھا کہ بہت متعجب ہیں، تو آپ نے فرمایا: ایسا لگتا ہے کہ آپ کو میری اس مختصر نماز پڑھانے سے تعجب ہوا ہے؟ صحابہ نے فرمایا جی یارسول اللہ، تو آپ نے فرمایا نماز کے دوران مجھے ایک بچے کے رونے کی آواز آئی اس لئے میں نے نماز مختصر کی تاکہ اس کی والدہ پریشان نہ ہو….اللہ اکبر! دیکھا آپ دوسروں کا کتنا خیال رکھتے تھے اور اپنی محبت کا کیسے اظہار کرتے تھے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button