دوسروں کے کام میں بلاوجہ مداخلت نہ کریں
اللہ تعالی نے کائنات میں روشنی، حرارت اور دیگر کئی مقاصد کے لیے نظام شمسی کو قائم کیا۔ نظام شمسی میں سورج، 8 سیارے، ان آٹھ سیاروں کے 162 چاند اور کروڑوں دوسرے چھوٹے سیارے موجود ہیں، جنہیں "اجرام فلکی” کہا جاتا ہے۔ مشہور ماہر فلکیات "عمانوئیل کینٹ” نے 1755ء میں نظام شمسی کی تاریخ کا نظریہ پیش کیا، جس کی رو سے 4 ارب 60 کروڑ سال پہلے نظام شمسی وجود میں آیا۔
کروڑوں سال سے یہ نظام اس کائنات میں موجود ہے، ایک دن کے لیے بھی اس میں کوئی خرابی اور خلل نہیں آیا، جس طرح پہلے اس سے روشنی، حرارت اور دیگر مقاصد حاصل ہوتے تھے، آج بھی ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کس طرح ہو سکتا ہے اور اس کی کامیابی کا راز کیا ہے؟
سائنسی تحقیق کے مطابق اس کے کئی جوابات دیے جاسکتے ہیں، مگر قرآن مجید میں سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 17 میں اللہ تعالیٰ نے اس سوال کا بنیادی اور قابل فہم جواب دیا ہے کہ (نظام شمسی میں سے) "ہر ایک اپنے اپنے مدار میں چل رہا ہے۔” بہ الفاظ دیگر اللہ تعالی نے ان اجرام فلکی کے اپنے اپنے مدار اور اپنی اپنی حدود مقرر کی ہوئی ہیں، یہ اپنی اپنی حدود اور اپنے اپنے مدار میں رہ کر کام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی۔
اگر یہ اجرام اپنے مدار اور حدود سے نکل کر کسی دوسرے سیارے کی حدود اور مدار میں چکر لگانا شروع کر دیتے، تو کائنات بہت بڑے حادثے سے دوچار ہوجاتی۔ یوں یہ نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ اس میں انسان کے لئے بھی ایک خاموش پیغام ہے کہ اگر ہم زندگی کے میدان میں بغیر کسی خرابی کے امن و عافیت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تو اسی سادہ خدائی اصول کو اپنانا ہو گا۔
انسان کا بنایا کوئی بھی نظم و نسق کامیابی سے تب ہی چل سکتا ہے، جب اس اصول کے مطابق چلایا جائے گا۔ یہی وسیع تر اعتبار سے انسانی زندگی کا معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں ہنستے بستے گھرانوں، فعال محکموں اور دیگر حکومتی و شخصی اداروں میں آئے روز نظر آنے والے فساد، ٹوٹ پھوٹ اور خرابی کی کئی وجوہات ہیں، ان میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ انسان اس خدائی اصول کو نظر انداز بلکہ پس پشت ڈال کر اپنے مدار اور حدود سے نکل کر دوسروں کے مدار اور حدود میں کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ خرابی، فساد اور ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
چنانچہ عملی میدان میں ہر شخص کے لئے ایک حد مقرر ہوتی ہے، جس کے اندر رہ کر اسے کام کرنا ہوتا ہے، جب تک وہ اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرے گا، اسے امن و عافیت اور سکون و کامیابی حاصل ہو گی۔ لیکن جب وہ دوسروں کا لحاظ کیے بغیر اپنی حدود سے تجاوز کرے گا اور دوسروں کے کام میں دخل دے گا، تو نتیجہ بگاڑ کی صورت میں برآمد ہو گا۔
آپ ایک گھر کی مثال لے لیں، جہاں میاں، بیوی اور بال بچے ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، ان افراد کی فطری حدود مقرر ہیں۔ اولاد، والدین، خاوند اور بیوی کی ذہنی سطح، قوت فیصلہ، تجربات اور دوراندیشی یکساں نہیں، بلکہ ان میں بہت بڑا فرق ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے اپنے فطری قانون میں انہیں الگ الگ مقام اور مرتبہ اور ان کی الگ الگ حدود مقرر کی ہیں۔
اگر اولاد والدین کو حاصل اختیارات خود استعمال کر کے فیصلے کرنا شروع کر دیں یا بیوی شوہر کو حاصل اختیارات خود استعمال کر کے اپنی سوچ کی بنیاد پر فیصلے شروع کر دے اور اس طرح امور خانہ داری چلانے لگ جائے، تو اس گھرانے کو بے چینی اور ناکامی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے گھرانوں کی ٹوٹ پھوٹ اور افراد خانہ میں باہمی ٹکراؤ اور عدم اعتماد کے پس منظر میں یہی چیز ہوتی ہے۔
اسی طرح کسی انتظامی یا تعلیمی ادارے کی مثال لے لیں، جہاں ماتحت افسران اور افسر اعلی کا تصور پایا جاتا ہے۔ افسران اور تدریسی عملہ کی اپنی حدود ہیں اور پرنسپل کی اپنی حدود ہیں۔ اگر اساتذہ اپنی حدود سے نکل کر پرنسپل کے قائم کیے گئے نظم و نسق میں مداخلت کریں یا ماتحت افسران اپنی حدود سے تجاوز کر کے افسر اعلی کے اختیارات استعمال کرنا شروع کر دیں گے یا اس کے برعکس افسر اعلی اپنے ماتحت افسران اور پرنسپل اپنے تدریسی عملے کے کام میں دخل اندازی شروع کر دیں، تو یہ اس تعلیمی یا انتظامی ادارے کی ساکھ کیلئے خطرناک ثابت ہو گا۔
یہی حال قائد و کارکن، امام و مقتدی اور مدرس و مہتمم بلکہ ہر شعبے کا ہے۔خانگی زندگی ہو یا پیشہ ورانہ زندگی، کاروباری حکومت ہو یا انتظامی ادارہ، ضروری ہے کہ تمام متعلقہ افراد اور کارکنان اپنی اپنی حدود کا تعین کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ دوسرے کے کام میں بے جا مداخلت نہ ہو، نہ ہی دوسروں کو منصب کے لحاظ سے حاصل اختیارات خود استعمال کرنے کی کوشش کریں اور نہ ہی اپنی حد سے تجاوز کریں۔
اسی سادہ اصول پر عمل پیرا ہونے میں ہماری، ہمارے گھرانوں اور ہمارے اداروں کی بہتری ہے اور اسی خدائی حکمت میں کامیابی اور سکون ہے۔ ورنہ زندگی کے میدان میں دوسروں کا لحاظ کئے بغیر جو لوگ کام کرتے ہیں، پہلے وہ خود سکون اور اعتماد سے محروم ہوتے ہیں، پھر بڑی سطح پر ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جس کا نتیجہ نقصان ہی نقصان کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔لہذا نظام شمسی کی کامیابی کے پس منظر میں "اپنے اپنے مدار” کا خدائی اصول اپنی عملی زندگی میں پیش نظر رکھ کر کام کریں اور دوسروں کے کام میں مداخلت نہ کریں۔