گاؤں کے لوگ ترقی میں پیچھے کیوں رہ گئے؟

پاکستان کی دیہی آبادی شہری آبادی کی نسبت ترقی میں بہت پیچھے ہے، یہ آبادی لگ بھگ 12 کروڑ بنتی ہے جسے ملک کی آدھی آبادی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کروڑوں لوگ ترقی کی راہ میں کیوں پیچھے رہ گئے یہ بہت اہم سوال ہے۔ دیہی آبادی کی ترقی کبھی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی نہ ہی حکومت نے پسماندہ علاقوں میں کارخانے اور فیکٹریاں لگانے کی منصوبہ بندی کی ہے جس سے لوگوں کو روزگار ملتا۔ کارخانے اور فیکٹریاں شہری آبادی میں قائم کی گئیں جو پہلے سے خوشحال تھے یوں شہروں میں رہنے والے لوگ ترقی میں آگے نکل گئے۔

گاؤں دیہات میں رہنے والے کئی لوگ سہانے خواب لے کر شہروں میں آ بسے تاکہ معیار زندگی بلند ہو اور بچے پڑھ لکھ جائیں، کم از کم بچے زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہیں، تاہم اب بھی بہت بڑی تعداد گاؤں چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہے، ایک دوست نے کہا کہ شہر میں اس کا دم گھٹتا ہے، نہ ہی ایسا ممکن ہے کہ سارے لوگ شہروں میں منتقل ہو جائیں۔

گاؤں میں ایک طبقہ ایسا ہے جس نے آگے بڑھنے کی شعوری کوشش ہی نہیں ہے، جن لوگوں کے باپ دادا کی زمینیں تھیں انہوں نے زمیندارہ کو بطور پیشہ اختیار کر لیا ہے حالانکہ زمینیں تقسیم ہوتے ہوتے بہت کم رہ گئی ہیں، پنجاب کے بارے کہا جاتا ہے کہ تیسری نسل کو زمینیں منتقل ہو چکی ہیں، اگر دادا کی ایک لاٹ تھی جو 12 ایکڑ پر مشتمل ہوتی ہے، پہلی نسل میں تین بیٹے بھی ہوں تو 4 ایکٹر ایک کے حصہ میں آئی ہے پھر اگلی نسلی کو ایک آدھ ایکڑ ہی منتقل ہوئی ہے۔

یوں دیکھا جائے تو زمینوں کی آمدن نہ ہونے کے برابر ہے مگر ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ ہم زمینوں کے مالک ہیں، لہذا ایسے نوجوان کوئی کام دھندہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ زمینوں کے مالک ہونے کی وجہ سے ان کی تعلم بھی پوری نہیں ہو سکی ہے بلکہ پنجاب میں کروڑوں نوجوان انڈر میٹرک ہیں، ایسے افراد نے کوئی ہنر سیکھنے کا تکلف بھی نہیں کیا ہے۔

ان نوجوانوں نے جب پیٹ پر لات پڑتی دیکھی ہے تو کوئی کام کاج کا سوچنے لگے ہیں، تعلیم اور ہنر نہ ہونے کے باوجود انہیں اچھی نوکری چاہئے، مجھ سے گاؤں کے کئی نوجوان رابطہ کر کے نوکری کی بات کرتے ہیں، ایک نوجوان کے رابطہ کرنے پر سوال کیا کہ تعلیم کیا ہے؟ خاموش ہو گیا، پوچھا کچھ کرنا جانتے ہیں؟ کہا جو کام دیں گے کر لوں گا، میں نے کہا کہ ایک ادارے کو اکاؤنٹنٹ چاہئے کر لو گے؟

کہا یہ مشکل ہے کوئی اور کام دیکھیں، میں نے کہا کہ ایک جگہ پر ویڈیو ایڈیٹر چاہئے کر لو گے؟ بولے یہ بھی نہیں ہو گا کوئی اور بتائیں، میں نے کہا کہ بھائی ایسے آپ کو کوئی کام نہیں ملنے والا ہے۔ آپ اپنی سی وی تیار کریں جس میں اپنی تعلیم اور مہارت و تجربہ لکھیں، جس کام میں آپ ماہر ہوں گے وہ کام آپ کو دلا دیں گے۔ مگر نوجوان کچھ سیکھنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جیسے ہیں جس حالت میں ہیں انہیں کوئی اچھی ملازمت مل جائے جس کی تنخواہ کم از کم ایک لاکھ روپے ہونی چاہئے یعنی اپنے طور پر انہوں نے معیار سیٹ کر رکھا ہے۔ میں نے کہا کہ ایسے لوگوں کو دفتر کے معمولی کاموں کیلئے رکھا جاتا ہے جس کی تنخواہ بھی معمولی ہوتی ہے یہ سنتے ہیں چہرہ لٹک گیا جیسے اس کی ملازمت کی راہ میں ہم رکاوٹ ہیں۔

میرے پیارے نوجوانو! سب سے پہلے اپنی تعلیم پر توجہ دیں، اگر کسی بھی وجہ سے آپ اپنی تعلیم پوری نہیں کر سکے ہیں اور آپ کی عمر بیس سال کے قریب ہے تو کوئی ہنر سیکھنے میں دیر نہ کریں، عار محسوس نہ کریں اگر ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھے رہے تو اپنی زندگی کا بہترین وقت کھو دیں گے پھر جب ہوش آئی گی تو ہاتھ میں کچھ نہیں ہو گا۔ ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ جو کام دوسرے لوگ کر سکتے ہیں وہ آپ بھی کر سکتے ہیں، کم ہمتی کو اپنے اوپر سوار نہ ہونے دیں، یہ کم ہمتی آگے چل کر آپ کی بے بسی بن جائے گی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button