مقصد کے حصول کی تڑپ قوتِ عمل کو بڑھا دیتی ہے

ایک تعلیم یافتہ صاحب ایک معروف ادارہ میں ہمہ وقتی ملازم تھے۔ اسی کے ساتھ وہ ایک انگریزی اخبار میں سب ایڈیٹر بھی تھے۔ وہ مذکورہ ملازمت کی ذمہ داریاں پوری طرح نبھاتے تھے اور اسی کے ساتھ اخبار کی ادارتی ذمہ داریاں بھی۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنا زیادہ کام کیوں کرتے ہیں۔ آپ کو وقت کیسے ملتا ہے ۔ انہوں نے جواب دیا: وقت کوئی چیز نہیں‘ یہ صرف دلچسپیوں کی کارگزاری ہے: Time is nothing but its is a function of inerests.

یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی کام کی تکمیل کے لیے اصل اہمیت وقت کی نہیں ‘ اصل اہمیت دلچسپی کی ہے‘ یہ آدمی کی دلچسپی ہے کہ جو اس سے کسی کام کو پورا کروا دیتی ہے۔ واقعی لگن اور شوق ہو تو کم وقت میں آدمی میں بہت سا کام کر لے گا ‘ اور اگر شوق اور لگن نہ ہو تو زیادہ وقت بھی اس کے لیے تھوڑا بن جائے گا۔

ایک شخص کے پاس ملک کے باہر سے ایک پیشکش آئی۔ وقت صرف تین ہفتہ کا تھا ‘ جب کہ اس کے پاس ابھی تک پاسپورٹ بھی نہیں تھا۔ موجودہ زمانہ میں بیرونی سفر کے لیے بہت سے قانونی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ بظاہر وقت پر سفر کرنا انتہائی دشوار تھا۔ مگر اس نے رات دن ایک کر کے سارا کام پورا کر لیا اور ٹھیک تاریخ پر وہ ہوائی جہاز میں بیٹھ کر مطلوبہ ملک کو پرواز کر رہا تھا۔

دوسری طرف اسی قسم کا موقع ایک اور شخص کے لیے پیدا ہوا۔ وہ شہر سے دور دیہات میں تھا‘ اس نے اپنے ایک رشتہ دار کو جو شہر میں رہتے تھے ‘ خط لکھا کہ میرے لیے شہر میں آنا مشکل ہے ۔ آپ میرا یہ کام کرا دیجئے اور اس سلسلے میں جو پیسہ خرچ ہو گا وہ میرے ذمے ہو گا۔ رشتہ دار نے جواب دیا کہ میں کوشش کروں گا۔

مذکورہ شخص ان کے اطمینان پر رہ گیا۔ اس کے پاس پورے دو مہینے کا وقت تھا مگر اس کا کوئی کام نہیں ہوا اور نہ وہ باہر جا سکا۔ آخر میں مذکورہ رشتہ دار کا پیغام ملا کہ فلاں وجہ پیش آگئی ‘ اس وجہ سے میں تمہارا کام نہ کر سکا۔ یہ زبانی پیغام تاخیر سے اس وقت پہنچا جب کہ وقت گزر چکا تھا …

پہلے شخص نے اپنا کام سمجھ کر دلچسپی لی تو اس نے کم وقت کے باوجود کام کو پورا کر لیا۔ دوسرے شخص نے اپنے کام کی طرح دلچسپی نہیں لی اس لیے معمولی باتیں اس کے لیے عذر بن گئیں اور زیادہ وقت کے باوجود وہ کام کو انجام نہ دے سکا۔ آدمی کو جب کام کا شوق ہو تو اس کے لیے عقل کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

مقصد کو حاصل کرنے کی تڑپ اس کی قوتِ عمل کو بڑھا دیتی ہے۔ وہ اس کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار ہو جاتاہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دنوں میں وہ کام کر لیتا ہے جس کو دوسرا شخص ہفتوں اور مہینوں میں بھی نہ کر سکے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button