تلخ لمحات کو بھول جائیں مثبت پہلو سامنے رکھیں

حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ عبرانی زبان میں آپ کا دوسرا نام ’’اسرائیل‘‘ تھا، جس کا مطلب ہے اللہ کا بندہ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، جن سے آگے چلنے والی نسل کو ’’بنی اسرائیل‘‘ یعنی یعقوب کی اولاد کہا جاتا ہے۔ ان بیٹوں میں سب سے چھوٹے حضرت یوسف علیہ السلام تھے، جن کی سوانح حیات کو قرآن نے ’’احسن القصص‘‘ کہہ کر بیان کیا۔ چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کا احاطہ کرتے ان واقعات میں ہمارے لئے نہایت قیمتی اسباق موجود تھے، اس لئے قرآن میں بڑے اہتمام سے ان واقعات کو بیان کیا گیا۔

حضرت یوسف اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے نبوی فہم و فراست سے ان میں سعادت و سیادت کی کچھ علامات بھی دیکھ لی تھیں، جن کی بنا پر بنسبت دیگر بیٹوں کے وہ حضرت یوسف سے زیادہ لگاؤ، دلچسپی اور محبت کرتے تھے۔ باپ بیٹے کی اس محبت کو دیکھ کر دیگر بھائیوں کو حضرت یوسف سے حسد ہونے لگا، انہوں نے دسیوں ترکیبوں سے اس محبت کو کم کرنے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ بالآخر انہوں نے ایک خوفناک تدبیر اختیار کی کہ کسی طرح حضرت یوسف کو والد کی نگاہوں سے ہی اوجھل کر دیا جائے۔

چناچہ انہوں نے کھیل کود کے بہانے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے ساتھ لے جانے پر فریب کاری سے حضرت یعقوب کو رضامند کر لیا۔ جنگل میں پہنچ کر طے پایا کہ حضرت یوسف کو کنویں میں ڈال دیا جائے، یوں حضرت یوسف کو کنعان کے ایک گمنام اور ویران کنویں میں پھینک کر برادران یوسف واپس آ گئے، لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ برادران نے جس یوسف کو کنویں میں پھینک کر اپنے خیال میں قصہ تمام کر دیا تھا، اللہ نے اسے نہ صرف مصر کا بادشاہ بنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہی برادران کو محتاج و مسکین بنا کر حضرت یوسف کے پاس بھیج دیا۔ حضرت یوسف ان کو پہچان گئے مگر وہ حضرت یوسف کو نہ پہچان سکے، کیونکہ حضرت یوسف کو اتنا بڑا مقام ملنے کا انہیں وہم و گمان تک نہ تھا۔
حضرت یوسف نے انہیں ملامت کئے بغیر یہ راز کھول دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے برادران سے اس خواہش کا اظہار کر دیا کہ آپ سب اہل و عیال اور والدین کے ہمراہ یہاں میرے پاس آ جائیں۔ یوں وہ سب کنعان سے مصر منتقل ہوگئے، ان کی آمد پر ان کے اعزاز میں ایک بڑی استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی، طویل جدائی کے بعد باپ بیٹا مل کر نہایت مسرور ہوئے، اس موقع پر حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کے سامنے ایک مختصر تقریر کی۔

اگر چاہتے تو جن تکلیفوں اور آزمائشوں سے وہ گزرے تھے، ان کے احوال اپنے والد کے سامنے بیان کر سکتے تھے۔ یقیناً بھائیوں کی طرف سے آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی، تاریک کنویں میں شب و روز گزارے، انجانے قافلے کے ہاتھ لگ گئے، لمبے عرصہ تک مہربان والد کی جدائی سہنا پڑی، بچپن میں ہی والد کی شفقتوں سے محروم ہو گئے، غلام بنا کر خرید و فروخت کی گئی، عزیز مصر کی بیوی کا ان کی پاکدامنی پر ناکام حملہ ہوا، بے گناہ ہونے کے باوجود ایک عرصہ جیل کی مشکلات برداشت کیں، لیکن بہ ایں ہمہ حضرت یوسف نے اپنے والد اور بھائیوں کے سامنے ان واقعات کا ذکر کرنے کی بجائے صرف مثبت رخ اور پہلو کا ذکر کیا، تاکہ خود ان کو، والدین کو اور بھائیوں کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو اور وہ کسی ذہنی کوفت میں مبتلا ہوئے بغیر پرسکون اور خوشگوار زندگی گزار سکیں۔

قرآن میں حضرت یوسف کی یہ گفتگو موجود ہے کہ کس طرح انہوں نے ان واقعات بلکہ مصائب کے صرف مثبت پہلو کا ذکر کرکے اللہ کا شکر ادا کیا۔ چنانچہ انہوں نے برادران کی زیادتیوں کو شیطان کی کارستانی قرار دے کر بھائیوں کی بے چینی ختم کر دی۔ جیل خانے میں جانے اور وہاں کی مشکلات کا ذکر کرنے کی بجائے وہاں سے نکلنے کا ذکر کیا۔ والدین کی جدائی اور اس کے نتیجے میں پہنچنے والے صدمے کا ذکر کرنے کی بجائے ان کے کنعان سے مصر آنے کا ذکر کیا۔

قارئین! حضرت یوسف کے اس طرز عمل میں ہماری خانگی اور معاشرتی زندگی کے لیے بڑا سبق ہے۔ خانگی زندگی میں میاں بیوی، بہن بھائیوں اور والدین و اولاد کے مابین بسا اوقات معمولی شکایتیں پیدا ہو جاتی ہیں، بروقت ازالہ نہ کرنے کی وجہ سے یہی شکایتیں تلخیوں اور پھر دوریوں کو جنم دیتی ہیں۔ بسا اوقات ہنستے بستے گھر اجڑ جاتے ہیں۔ چونکہ ہر واقعے میں مثبت و منفی دونوں پہلو ہوتے ہیں، اگر واقعات کا مثبت پہلو پیش نظر رکھا جائے تو نہ صرف کشیدگی امن میں اور بے چینی سکون میں بدل جائے، بلکہ زندگی پہلے سے زیادہ محبت بھری اور خوشگوار ہو جائے۔

اسی طرح ہر فرد کے حافظے میں ماضی کے گزرے تلخ واقعات موجود ہوتے ہیں، جن کی یاد انسان کو ذہنی کوفت بلکہ ڈپریشن میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ایسے میں اگر ان تلخ تجربات یا واقعات کا مثبت رخ سامنے رکھا جائے، تو انسان کا اضطراب، چین و قرار میں بدل سکتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں بھی انسان کو بسا اوقات دوسروں سے گلے شکوے یا بداعتمادی پیدا ہو جاتی ہے، اگر ایسے مواقع پر معاملات کا مثبت پہلو سامنے رکھا جائے تو ناراضیوں اور دوریوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے اس طرز عمل سے سبق حاصل کرنے اور واقعات کے مثبت پہلو پیش نظر رکھنے کے کئی فائدے ہیں۔ خانگی نظام میں ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزر کرنے کی وجہ سے افراد خانہ کی زندگی میں سکون، باہمی محبت اور اعتماد پیدا ہو سکتا ہے، انفرادی اعتبار سے انسان کی زندگی میں غموں کی جگہ خوشگواری پیدا ہو سکتی ہے، معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں مثالی تعلقات کو فروغ مل سکتا ہے اور اس کے ساتھ انسان میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی عادت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ لہذا واقعات کے مثبت پہلو سامنے رکھیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button