افغانی پاکستان سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟

ایشیاء کپ کے اہم کرکٹ میچ کے دوران اور شکست کے بعد افغانیوں نے پاکستان کے خلاف جس نفرت کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل مذمت ہے ،یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے اس سے پہلے بھی متعدد بار افغانی پاکستان سے نفرت کا اظہار کر چکے ہیں، جو لوگ اس واقعے کو ایک شخص کے ساتھ جوڑ کر معاملہ ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں شاید وہ افغانوں کے مزاج اور قوم پرستی سے واقف نہیں ہیں، افغانوں کی قوم پرستی اور شدت پسندی کو سمجھنے کیلئے ذیل کی سطور معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔

افغانستان میں دو بڑی اقوام آباد ہیں ایک پشتون، دوسرے فارسی بان۔ طالبان پشتونوں کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ فارسی بان طالبان مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ فارسی بان جن کے سرکردہ حامد کرزئی اور اشرف غنی تھے انہوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر افغان طالبان کی حکومت ختم کی جس کے بعد طالبان کی ابتلاء کا دور شروع ہوا، انہیں بیس سال تک جدوجہد کرنی پڑی۔ فارسی بانوں کی اکثریت پاکستان کی شدید مخالف ہے، ان میں یہ مخالفت نفرت کی حد تک پائی جاتی ہے، یہ لوگ امریکہ اور بھارت نواز کہلاتے ہیں اور انہیں پاکستان مخالف ہدایات بھی وہیں سے ملتی ہیں۔

یہ لوگ اپنے طور پر سمجھتے ہیں کہ پاکستان طالبان کی سرپرستی کرتا ہے۔ سو طالبان کو برا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ پاکستان کو بھی برا بھلا کہتے ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، جب سر چھپانے کیلئے دنیا بھر میں کہیں جگہ نہ ملے تو پاکستان میں پناہ بھی لے لیتے ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی اور کئی اہم رہنما پشاور میں قیام پذیر رہے ہیں، اسی طرح افغان کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز پلیئر راشد خان سمیت کئی کھلاڑی پشاور میں قیام کے دوران کرکٹ سیکھتے رہے ہیں۔ ہزاروں افغان شہری علاج کی غرض سے پاکستان کا رخ کرتے ہیں اس کا تو تقاضا تھا کہ افغان محسن کُشی سے گریز کرتے مگر افغانیوں میں موجود ایک مخصوص ٹولہ ’’جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں چھید کرتا ہے‘‘ کے مصداق پاکستان کے خلاف نفرت کا اظہار کرتا رہتا ہے۔

افغانستان کے فارسی بانوں کی سوچ کے برعکس افغانستان کے پشتون یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے ہر مشکل کی گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا ہے، لاکھوں افغانوں کو پناہ دی ہے اور امریکہ کے ساتھ جنگ ختم کرانے میں پاکستان کا اہم کردار ہے، یوں دیکھا جائے تو یہ بنیادی طور پر سوچ کا فرق ہے افغان قوم میں جو لوگ پاکستان کو اپنا محسن سمجھتے ہیں وہ پاکستان کے خلاف جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں، یہ یکطرفہ معاملہ نہیں بلکہ پاکستانی بھی اپنے افغان بھائیوں پر جان چھڑکتے ہیں، مگر افغانستان کے جو لوگ آنکھیں بند کر کے امریکہ و بھارت پر یقین کرتے ہیں وہ پاکستان کو گالیاں نکالنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں ایسے افراد کو احسان فراموش کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

پاکستان کے خلاف نفرت کا مظاہرہ کرنے والے افغان باشندے طالبان کو تاحال قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ان کی شدید خواہش ہے کہ امریکہ پھر سے کوئی حملہ کر کے انہیں طالبان سے نجات دلا دے، طالبان کی حکومت قائم ہو جانے سے فارسی بانوں کو سب سے بڑا دھچکہ یہ لگا ہے کہ کابل میں فحاشی کے اڈے اور ناچ گانے کے سینٹر بند ہو گئے ہیں جو ان کی کمائی کا اہم ذریعہ تھے، افغان امور کو جاننے والے مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ افغانستان میں پشتون دینداری اور اپنی روایات کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں جبکہ فارسی بان اپنی آزاد خیالی کو ترک کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں، یہ وجوہات ہیں کہ افغانستان کے فارسی بان جب گراؤنڈ میں جاتے ہیں تو پرانے پرچم کو لہراتے ہیں، حالانکہ افغانستان میں ان کو جرأت نہیں کہ یوں سرعام پرانا پرچم لہرا سکیں، اس لئے کھیل کے میدان یا پاکستان میں پرانے پرچم لہرا کر ماحول کو آلودہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر افغان پرچم کو لہرانے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟

کل کے میچ میں افغان کھلاڑی نے پاکستان کے پاور ہیٹر آصف علی کے آؤٹ ہونے پر جس نخوت کا مظاہرہ کیا اسے پوری دنیا نے دیکھا، اور سچ تو یہ ہے کہ افغان کرکٹ ٹیم کو بہترین کارکردگی کے باوجود تکبر کی مار پڑی ہے وہ جیتا ہوا میچ تکبر کی وجہ سے ہار گئے۔ اس پس منظر کے بعد چند گزارشات ہیں کہ جو لوگ پوری افغان قوم کو احسان فراموش قرار دے رہے ہیں انہیں تصحیح کر لینی چاہئے، کیونکہ افغانستان میں پشتونوں کی بڑی تعداد اب بھی پاکستان کا دم بھرتی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ افغان کھلاڑی کے فعل کو اس کے ذاتی فعل سے تعبیر کر کے مٹی ڈالنے کا کہہ رہے ہیں وہ بھی تصحیح کر لیں کہ معاملہ ان کی سوچ سے بڑھ کر ہے، یعنی افغان قوم کے اندر جو تفریق پائی جاتی ہے اب اس کے مظاہر کھیل کے میدان میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں، افغان کرکٹ ٹیم میں حامد کرزئی گروپ کے حامیوں کی اکثریت ہے، طالبان کیلئے تو کرکٹ ایک غیر ضروری کھیل ہے، اس لئے ان کی ترجیحات میں کرکٹ شامل بھی نہیں ہے، مگر افغان کرکٹ ٹیم کے راشد خان اور محمد نبی جیسے کھلاڑیوں کو معاملہ کی نزاکت کو سمجھنا ہو گا اور جو سوچ افغان کرکٹ ٹیم میں جنم لے رہی ہے اس کا سدباب کرنا ہو گا ، جبکہ ہمارے ہاں بھی معاملے کی سنگینی کو دیکھ کر کرکٹ ٹیم کی تربیت پر توجہ دی جانی چاہئے، کسی دور میں پاکستان اور بھارت کے میچ میں ناخوشگوار واقعات پیش آتے تھے اب ان میں کمی آ گئی ہے، ان خطوط پر سوچ کر افغانستان کے ساتھ میچ میں ہونے والی متوقع ناخوشگوار صورتحال کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button