خدمت خلق اور رفاہ عامہ نبیوں کا شیوہ ہے

اسلام کا مقصود ایک رفاہی، اصلاحی اور فلاحی معاشرے کا قیام ہے، اسلام نے فلاحی کاموں کو زندگی کا نصب العین اور رضائے الہی کے حصول کا راستہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے کسی ظالم کے حوالے کرے۔ جو کوئی اپنے بھائی کے کام میں لگا رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کے کام میں لگا رہے گا۔ جو کسی مسلمان کی بے چینی یا پریشانی دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی بے چینی دور فرما دے گا۔ اور جو مسلمان کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن عیب پوشی فرمائے گا۔ (بخاری)

’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو انسانی ضروریات کیلئے پیدا کیا ہے کہ ضرورت کے وقت جب عام لوگ اپنی ضرورت پیش کریں، تو وہ ان کو پورا کریں۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف رہیں گے اور امن کی زندگیاں بسر کریں گے۔‘‘ (طبرانی)

’’بہت سی قوموں کو اللہ تعالیٰ بڑی بڑی نعمتیں اس لئے مرحمت فرماتا ہے کہ وہ لوگوں کی خدمت کریں اور ان کی ضرورتیں پوری کریں، خوشی سے یہ کام انجام دیتے رہیں، نہ اس سے اکتائیں اور نہ گھبرائیں۔ اور جب وہ لوگ خدمت خلق سے تنگ ہو کر اکتا جائیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی ان نعمتوں کو ان سے چھین کر دوسروں کے حوالے کر دے گا‘‘۔(طبرانی، ترغیب)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ ہر مسلمان پر صدقہ ضروری ہے، عرض کیا گیا کہ اگر وہ کچھ بھی نہ پائے، فرمایا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کر کے اپنی ذات کو نفع پہنچائے اور صدقہ کرے۔ کہا گیا کہ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو فرمایا، فریادی، مظلوم اور حاجت مند کی اعانت کرے۔کسی نے عرض کیا کہ اگر یہ بھی ہمت نہ ہو، فرمایا، نیکی اور بھلائی کی بات لوگوں کو بتائے، کہا گیا اگر یہ بھی نہ کر سکے تو فرمایا، شرارت اور تکلیف پہنچانے سے باز رہے، یہی اس کے حق میں صدقہ ہے‘‘۔ (بخاری)

’’صحابہ کرامؓ کسی غزوہ سے مدینہ واپس آئے تو ایک ساتھی کی بہت تعریفیں کرنے لگے کہ وہ بہت اچھا آدمی ہے، راستے میں برابر قرآن کریم کی تلاوت کرتا رہا، جہاں کہیں ہم لوگوں نے پڑاؤ کر کے قیام کیا، وہ وہیں پر کثرت سے نوافل ادا کرتا رہا، ایسا نیک آدمی ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کے سامان کی دیکھ بھال کون کرتا تھا اور اس کی سواری کو چارہ کون کھلاتا تھا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم نے اس کے سامان کی نگرانی کی اور اس کی سواری کو چارہ فراہم کیا۔ آپؐ نے فرمایا، تم اس سے بہت اچھے ہو کیونکہ تم لوگوں نے خدمت کی ہے‘‘۔ (سنن ابوداؤد)

سب اعمال سے بہتر عمل یہ ہے کہ کسی مسلمان کو خوش کرو یعنی اگر وہ برہنہ یا ننگا ہے تو اس کی ستر پوشی کر دو، اگر بھوکا ہے تو پیٹ بھر کر کھانا دو، اگر پیاسا ہے تو پانی پلا دو، اگر کسی کا محتاج اور ضرورت مند ہے تو اس کی حاجت پوری کر دو‘‘۔ (طبرانی، ترغیب)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تم کھانا کھلاؤ اور سلام کرو، ہر اس شخص کو جسے تم پہنچانتے ہو یا نہیں پہنچانتے۔ (بخاری)

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیمار کی عیادت کرو، بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور قیدی کی رہائی کا سامان کرو۔ (بخاری)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، ان میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کی عیال اور کنبے کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔ (مجمع الزوائد)

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیوہ اور مسکین کی (خدمت کیلئے) تگ و دو کرنے والا (نیکی میں) اس شخص کی طرح ہے جس رات بھر (اللہ کے حضور) کھڑا رہتا ہے اور اس روزے دار کی طرح ہے جو (مسلسل) روزے رکھے جاتا ہے اور ناغہ نہیں کرتا۔ (بخاری)

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ میرے ساتھ نیکی و بھلائی، عزت و احترام کا برتاؤ کریں۔ میرے کام آئیں، میرے دکھ سکھ میں شریک ہوں، میرے ہمدرد و غم خوار بنیں تو اسے چاہئے کہ وہ دوسروں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرے، ان کے ساتھ احترام سے پیش آئے تو وہ لوگ بھی اس کا احترام کریں گے۔ وہ آج تندرستی و جوانی میں کسی کی خدمت کرے گا تو کل لوگ بڑھاپے میں اس کی خدمت کریں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نوجوان نے کسی بوڑھے کی اس کی بڑی عمر میں عزت کی تو اللہ تعالیٰ اس کی بڑی عمر میں کوئی شخص متعین کرے گا جو اس کی بڑھاپے میں عزت کرے گا۔( ترمذی)

انسان کو چاہئے کہ اپنی بساط اور طاقت کے مطابق انسانوں کی خدمت کرے، ان کی ضروریات کو پورا کرے اور کسی نہ کسی نوع کا رفاہی کام کرتا رہے تاکہ جب اسے ضرورت ہو تو اس وقت کوئی فرد اس کی خدمت کرنے والا ہو اور وہ بالکل بے سہارا نہ رہ پائے۔

تمام انبیاء کرام نے انسانوں کی بہتری، بھلائی اور دنیا و آخرت کی سعادت کے کام کئے ہیں۔ ان کے کام چاہے دعوت و تبلیغ سے متعلق ہوں یا لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے سلسلے کے ہوں یا ان کی زندگیاں سدھارنے کے ہوں۔ پھر یہ چاہے انفرادی ہوں یا اجتماعی ہوں۔ چاہے فرد سے تعلق رکھتے ہوں یا معاشرے سے متعلق ہوں۔ یہ تمام کام اللہ کی طرف سے فرمودہ، ہدایت کردہ اور عطا کردہ ہیں اور تمام کے تمام نیکی کے ہیں۔

اس سلسلے میں قرآن مجید میں سب سے زیادہ قصہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کا مختلف پیرایوں اور طریقوں سے آیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں جتنے واقعات، حالات اور معجزات بیان ہوئے ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق انسانوں کی اجتماعی زندگی سے ہے۔

جو لوگ انفرادی و اجتماعی بھلائی کے کام کرتے ہیں وہ انبیاء کرام کے کام سر انجام دے رہے ہیں، انبیاء کی سنتوں کے پیروکار ہیں، لہذا یہ کہنا بالکل بجا اور درست ہے کہ رفاہی کام کارِ انبیاء ہیں۔ جس طرح نماز کی ادائیگی جنت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ایسے ہی مسکینوں اور بھوکوں کو کھانا کھلانا حصول جنت کا ذریعہ ہے۔ رفاہی کاموں میں سے نوے فیصد کا تعلق حقوق العباد سے ہے اس لئے جو لوگ رفاہی کام کرتے ہیں وہ دراصل حقوق العباد ادا کرتے ہیں۔ حقوق العباد کا دائرہ بہت وسیع ہے یہ دائرہ ماں باپ سے شروع ہو کر عزیز و اقارب سے ہوتا ہوا پڑوسیوں، ساتھیوں، مسکینوں، مسافروں، معذوروں، بیماروں، حاجت مندوں، بیواؤں اور طالب علموں تک پھیلا ہوا ہے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت نازل ہو، اللہ کی ان پر عنایات ہوں، اور ان کی طرف خیر و بھلائی آئے تو انہیں چاہئے کہ لوگوں پر رحم کھائیں، ان کی جائز ضروریات و حاجات پوری کریں، ان سے شفقت و رحمت کا برتاؤ کریں، اور ان سے حسن سلوک کریں تو اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے گا۔

انسان اپنی جان پر تو رحیم ہوتا ہی ہے اسی طرح اپنے گھر والوں اور عزیز و اقارب پر بھی رحمت و شفقت کا برتاؤ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں کہ انسان رحمت کا برتاؤ ہر ایک سے رکھے۔ ہر ایک کیلئے دل نرم و شفیق ہو۔ صحابہ کرام کی قرآن مجید میں صفات بیان کی گئی ہیں ان میں ایک صفت ’’رُحمائُ بینہم‘‘ یعنی وہ ایک دوسرے پر رحیم و شفیق ہیں۔ انسان پر دیدہ اور نادیدہ کئی قسم کی مصیبتیں آتی رہتی ہیں، اپنی کوتاہ اندیشی اور غلطی کی وجہ سے کبھی کسی طرف سے مصیبت آتی ہے تو کبھی کسی اور طرف سے مصیبت آتی ہے۔ ان مصیبتوں کو ٹالنے اور دفع کرنے کا ہلکا کرنے اور برداشت کرنے کی قوت حاصل کرنے کا ایک مستحکم ذریعہ صدقہ کرنا ہے، حدیث میں آتا ہے صدقہ و خیرات مصیبت کو ٹالتا ہے، اس لئے جو لوگ رفاہی و فلاحی کاموں میں مصروف رہتے ہیں وہ عام طرح مصائب سے پریشان نہیں ہوتے۔

انسان کو جو بات حوصلہ، جرأت اور قوت پیدا کرتی ہے وہ مذہب اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے، نفسیاتی طور پر بھی انسان کی مصروفیت کیلئے ضروری ہے کہ کسی اچھے کام سے لگا رہے۔ اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں سیلاب کی زد میں ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں موقع فراہم کیا ہے کہ فلاحی کاموں میں حصہ لے کر اپنے بھائیوں کو مصیبت سے باہر نکالیں، آپ مال خرچ کر سکتے ہیں تو مالی تعاون کیجئے، کھانا کھلا سکتے ہیں تو کھانا فراہم کریں، مالی طور پر کمزور ہیں تو جس قدر تعاون کر سکتے ہیں اس سے پیچھے نہ رہیں، اگر مالی تعاون کرنے سے قاصر ہیں تو اپنی خدمات پیش کریں تاکہ فلاحی کاموں میں کسی نہ کسی حوالے سے آپ کی شرکت ہو جائے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button