کہیں بھوک کے ڈیرے، کہیں اسراف کے بسیرے
نت نئے ڈیزائن کے ملبوسات‘ عمدہ زیورات‘ جیولری اور دیدہ زیب میک اپ کی بالعموم وہ خواتین دلدادہ ہوتی ہیں جو حلاوت ایمان کھو چکی ہیں۔ جن خواتین کے دلوں میں ایمان کی حلاوت موجود ہوتی ہے ‘ اُن کی ترجیحات یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ وہ یوں خواہشات کے پیچھے نہیں بھاگتیں۔
اول الذکر خواتین کے اسراف ‘ تبذیر ‘ فضول خرچی اور اخلاقی دیوالہ پن کے بارے میں سن کر آپ کو حیرت ہو گی۔ یہ ایک ایک ہینڈ بیگ پندرہ پندہ لاکھ میں خریدتی ہیں ۔ بڑے سے بڑے ہوٹل میں محض اس لیے جاتی ہیں کہ اُن میں جانا معیار کی علامت (Status Symbol)بن چکا ہے۔
اگر ان کی خوراک کو دیکھا جائے تو یہ چند لقموں سے زیادہ نہیں کھاتیں کہیں وزن بڑھ نہ جائے اور ان کی عمر زیادہ نظر نہ آنے لگے۔ ان میں کسی کی سماجی حالت دیکھیں تو وہ اس خدشے سے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتیں کہیں ان کے ناخنوں کی ہیئت (Shape)خراب نہ ہو جائے‘ کیونکہ انہوں نے مغربی اور انڈین اداکارائوں کی نقالی میں بڑے بڑے ناخن رکھے ہوتے ہیں عقل سے عاری ان خواتین کو یہ پتا نہیں کہ شریعت نے اتنے بڑے ناخن رکھنے اور ان پر نیل پالش کی تہیں جمانے سے سختی سے منع کیا ہے۔
ان کے ہوتے ہوئے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی‘ ایسی صورت میں غسل ہوتا ہے نہ وضو۔ کچھ ایسی بھی ہیں ‘ جنہوں نے ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے نوکرانیوں کی فوج ظفر موج رکھی ہوتی ہے‘ اس لیے کہ مالکن کو اپنی جسمانی تزئین و آرائش اور زیورا ت و ملبوسات کی نمائش ہی سے فرصت نہیں۔ یہ اس خدشے سے بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں کہ کہیں ان کے جسمانی حسن میں کمی نہ آ جائے۔
ان عقل سے عاری خواتین کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ وہ موٹاپا جس نے ان کے ناک میں دم کر رکھا ہے اور جس سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ ہزاروں روپے خرچ کرتی ہیں ‘ اس کی دیگر بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ مائوں کا بچوں کو دودھ نہ پلانا بھی ہے جس سے طرح طرح کے امراض اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
انہیں اپنی ان مسلمان بہنوں کا کوئی خیال نہیں جنہیں قوت لایموت بھی میسر نہیں‘ جن کے پاس اپنے کھانے کے لیے کچھ ہے نہ بچوں کو پلانے کے لیے دودھ۔ مثال کے طور پر صومالیہ کی ایک خاتون اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ علاقے سے نکلی کیونکہ اس کے پاس اپنے کھانے کے لیے کچھ نہ تھا‘ نہ بچوں کے لیے۔ خود تووہ کسی نہ کسی طریقے سے صبر کر رہے تھے اور اپنی موت کا انتظار بھی کر سکتے تھے ‘ لیکن بھوک سے تڑپتے بچوں کی دلخراش چیخیں انہیں ایک پل کے لیے بھی چین نہیں لینے دیتی تھیں۔
ان کے علاقے میں حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے تھے کہ اگر پتہ چلتا کہ فلاں شخص کے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے تو لوگ اس پر حملہ کر دیتے ‘ یہاں تک کہ قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ یہ لوگ دیگر ہزاروں خاندانوں کی طرح کینیا کی طرف بڑھے۔ کینیا پہنچنا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بظاہر ناممکن لگتا تھا۔ لق و دق صحرا اور بیابان جس میں میلوں تک کسی درخت یا جھاڑی کا نام و نشان نہیں آتاتھا‘ وہاں پانی ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
دن کے وقت یہ صحرا دہکتے ہوئے تنور کا روپ دھار لیتا۔ اب بھوک اور پیاس سے نڈھال نحیف و نزار لوگ جنہوں نے اپنے بلکتے ہوئے بچوں کو بھی اُٹھا رکھا ہوتا تھا‘ یہ جان لیوا اور ہولناک سفر کیسے جاری رکھتے؟! ہزاروں لوگ اپنے علاقوں سے نکلتے تو ان میں سے گنتی کے چند خوش نصیف ہی اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے۔ بھوک‘ پیاس اور گرمی کی مشکل کیا کم تھی کہ اُوپر سے صحرا میں کثیر تعداد میں سانپ اور بچھو بھی پائے جاتے تھے جو اتنے زہریلے تھے کہ جو بھی ان کا نشانہ بنتا ‘ چند لمحات میں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا۔
یہ خاندان گرتا پڑتا کسی نہ کسی طریقے سے چلا جا رہا تھا۔ سب سے پہلے باپ ہمت ہار گیا ‘ کیونکہ وہ اپنی ذات پر بچوں اور اپنی بیوی کو ترجیح دے رہا تھا ۔ اول تو کھانے کے لیے کچھ ملتا ہی نہیں تھا‘ اگر مل جاتا تو وہ اپنے بیوی بچوں کو کھلا دیتا ۔ آخر انسان کب تک فاقوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
ایک مقام پر وہ گرا اور پھر کبھی نہ اُٹھ سکا۔ اُس کے بیوی بچے دیر تک اُس کی لاش کے پاس بیٹھ کر آنسو بہاتے رہے۔ پھر اس کی لاش کو اسی طرح چھوڑ کر اپنے سفر پر روانہ ہو گئے ‘ کیونکہ بچے ابھی معصوم تھے اور مسلسل فاقوں کی وجہ سے خاتون میں بھی اتنی توانائی نہیں تھی کہ وہ قبر کھود کر اپنے خاوند کو دفن کر سکتی۔ کوئی اُس کی مدد کرنے والا بھی نہیں تھا‘ کیونکہ دیگر خاندان بھی اسی طرح کی کیفیات سے دوچار تھے۔
اُن کے پیارے ایک ایک کر کے اُن کا ساتھ چھوڑ رہے تھے‘ مگر وہ لوگ اپنی زندگی کی بقا کے لیے مسلسل آگے بڑھ رہے تھے۔ خاتون بھی کتنے عرصے تک اپنا سفر جاری رکھ پاتی۔ خاوند کی وفات کے اگلے دن اُس نے بھی اس جہان فانی تگ و تاز کو خیرباد کہہ دیا۔ بچے بلکتے اور آہ و بکاہ کرتے رہ گئے۔ لیکن ماں اب اُن کی چیخوں کی پہنچ سے بہت دور جا چکی تھی۔ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد وہ سود و زیاں سے ماروا ہو چکی تھی۔
اب معصوم بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ کوئی ان کی خوراک کا خیال رکھنے والا نہ آنسو پونچھنے والا۔ نہ ہی کوئی انہیں سانپوں اور بچھوئوں سے تحفظ دینے والا تھا۔ جہاں تک دیگر لوگوں کا سوال تھا تو ان کے لیے اپنے بچوں کو سنبھالنا اور بوجھ اٹھا کر چلنا ہی مشکل تھا۔ وہ ان بچوں کی ذمہ داری کیسے اٹھاتے؟
کیا اب ان بچوں کا مقدر یہی تھا کہ اپنی ماں کی لاش کے پاس بھوکے پیاسے بلک بلک کر جان دے دیتے؟بظاہر حالات کو دیکھا جائے تو ان کے ساتھ یہی ہونا تھا‘ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اتفاقاً دُعاۃ کی ایک جماعت جو یہاں کے لوگوں کی خوراک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی تگ و دو کر رہی تھی ‘ اس جانب آ نکلی۔ انہوں نے بچوں کی والدہ کو دفن کیا۔ بچوں کو کھانا کھلایا اور اپنے کیمپ میں لے گئے جہاں وہ ایک بہتر ماحول میں پرورش پانے لگے۔
یہ داعی صاحبان عرب ممالک کے اصحاب خیر کے تعاون سے ان علاقوں میں کام کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو بھی مشکل اور وسائل کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ وہ عورتیں جو پندرہ پندرہ بیس بیس لاکھ کا ہینڈ بیگ خریدتی ہیں ‘ لاکھوں روپے اپنے ملبوسات اور جوتوں پر لگاتی ہیں ‘ کیا اُن سے نہیں پوچھا جائے گا کہ ایک طرف بھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھال بچے اور خواتین ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے رہے تھے اور دوسری طرف اس قدر اسراف اور تبذیر… اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن کریم میں فرمایا:
ترجمہ: ’’پھر اُس دن تم سے نعمتوں کے متعلق ضرور سوال ہو گا۔ ‘‘ (التکاثر8:102)
(قصص مع الواقع‘ ص: 276، 277)
قارئین کرام! نعمتیں چھن جانے میں کوئی وقت نہیںلگتا۔ 08اکتوبر 2005کو پاکستان کے بالائی علاقوں میں جو زلزلہ آیا اس نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ لمحوںمیں سالوں میں آباد کی گئی بستیاں ملیامیٹ ہو گئیں اور لاکھوں افراد جاں بحق ہو گئے۔ جب نعمتیں چھنتی ہیں تو بالکل پتا نہیں چلتا۔
جب ہم اللہ کی نافرمانی کرنے لگ جائیں‘ اس کے دین کا مذاق اڑائیں تو پھر اللہ کا غضب نازل ہوتاہے۔ آج ایک بار پھر ملک کے ایک تہائی علاقے کو سیلاب کا سامنا ہے ، لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی اور امیدیں پانی میں بہہ گئی ہیں جو کل جائیدادوں کے مالک تھے آج ایک ایک نوالے کے محتاج ہیں۔ قرآن کریم نے اس کا تذکرہ کچھ یوں فرمایا ہے:
ترجمہ: ’’اللہ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے جو امن و چین سے رہتی تھی ‘ اس کا رزق اسے ہر جگہ سے بفراغت پہنچ رہا تھا‘ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے انہیں ان کے کرتوتوں کا مزا یہ چکھایا کہ ان پر بھوک اور خوف کا عذاب مسلط کر دیا۔ ‘‘ (النحل 112:16)