سیلاب متاثرین کی مدد میں کن امور کا خیال رکھیں؟
خود جا کر متاثرین کی مدد کر سکتے ہیں تو اپنے ہاتھوں سے فنڈز تقسیم کریں، خود جانا مشکل ہو تو ایسے اداروں پر اعتماد کریں جو معتبر ہوں
پاکستان کا ایک تہائی حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے چاروں صوبوں کے لگ بھگ چار کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں، متاثرین کی اکثریت اپنے روزگار سے منسلک یا باعزت زندگی بسر کر رہی تھی۔ یہ صاحب جائیداد لوگ اب سیلاب کی آفت کے بعد کھلے آسمان تلے اپنے اہلخانہ کے ساتھ موجود ہیں، انہیں اس وقت اہل وطن کے تعاون کی اشد ضرورت ہے ہمارا اخلاقی فرض بھی بنتا ہے کہ مصیبت میں اپنے بھائیوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں، اسی سوچ کے پیش نظر سینکڑوں تنظیمیں امدادی کاموں میں مصروف عمل ہیں، جو لوگ متاثرہ علاقوں میں جا کر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں وہ حقیقی ہیروز اور خراج تحسین کے حقدار ہیں، ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس تنظیم یا ادارے کو فنڈز دیئے جائیں کہ جو پوری دیانتداری اور ذمہ داری کے ساتھ متاثرین تک ان کو پہنچا دیں، یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کیونکہ اکثر لوگ متاثرین کی مدد کرنا چاہتے ہیں مگر وہ متاثرہ علاقوں میں جا نہیں سکتے، اس ضمن میں دیکھا جائے تو فنڈز دینے والوں کے خدشات بجا ہیں انہیں جاننے کا پورا حق حاصل ہے کہ ان کے دیئے ہوئے فنڈز کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟
اس حوالے سے چند تجاویز پیش ہیں۔
1۔اگر آپ خود جا کر اپنے فنڈز متاثرین میں تقسیم کر سکتے ہیں تو کوشش کریں کہ متاثرہ علاقوں کا سفر کریں یا اپنے جاننے والے اعتماد کے افراد کو امدادی سامان دے کر متاثرہ علاقوں میں بھیجیں تاکہ آپ کو دلی اطمینان ہو کہ آپ کے فنڈز واقعی حق داروں تک پہنچ گئے ہیں۔
2۔ اپنے فنڈز ان فلاحی اداوں کے سپرد کریں جو برسوں سے فلاحی سرگرمیوں میں شہرت رکھتے ہیں۔ جیسے الخدمت فائونڈیشن، اُمہ ویلفیئر ٹرسٹ، بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ اور البرہان جیسے دیگر مستند اداروں پر اعتماد کرکے فنڈز دیئے جا سکتے ہیں۔
3۔ حکومتی اداروں پر بالعموم لوگوں کو تحفظات ہوتے ہیں کہ فنڈز دیانتداری کے ساتھ تقسیم نہیں ہو پاتے ہیں، جو لوگ اس مد میں زکوٰۃ، صدقات یا والدین کے ایصال ثواب کیلئے فنڈز دے رہے ہوتے ہیں انہیں دلی اطمینان نہیں ہوتا ہے یہ افسوس کا مقام ہے کہ حکومتی اداروں پر لوگ اعتماد نہیں کرتے ہیں، حکومتی اداروں پر اعتماد نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کے پاس عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے جو مشکل وقت میں عوام پر خرچ ہونا چاہئے اس کے باوجود اگر کسی کو تسلی ہو کہ حکومت اس کے فنڈز کو اصل حق داروں تک پہنچائے گی تو اسے حکومت کی طرف سے جاری امدادی سرگرمیوں کا حصہ بننا چاہئے، ذمہ داری ہونے کے باوجود چونکہ حکومت عوامی تعاون کی محتاج ہوتی ہے اس لئے جس قدر ممکن ہو حکومت کو فنڈز دیئے جانے چاہئے زیادہ نہ ہوسکے تو 9999پر پورے گھر کو میسج کرکے اس میں شریک ہونا چاہئے۔
ایسے افراد کو ہرگز فنڈز نہ دیں جنہیں آپ جانتے نہ ہوں، کیونکہ مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ کئی لوگ سیلاب متاثرین کا نام لیکر فنڈز بٹور رہے ہیں، ایسے لوگ ان لوگوں کیلئے بھی مسائل پیدا کرتے ہیں جو فنڈز کی تقسیم میں شفافیت کو یقینی بناتے ہیں۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فلاحی کاموں میں صرف امیر لوگ حصہ لے سکتے ہیں، یہ سوچ درست نہیں ہے آپ اپنی استطاعت کے مطابق تعاون کریں، اور یہ سوچ کر کریں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس عظیم کام کیلئے منتخب کیا ہے ورنہ مشکل وقت گزر جائے گا لیکن خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جو اللہ کے عطا کردہ مال میں سے اس کے بندوں پر خرچ کریں گے کیونکہ بہترین مال وہ ہے جو اللہ کے بندوں پر خرچ ہو اور آزمائش ہے وہ مال جو باقی رہ جائے۔