سیلاب زدگان، ہم پر کیا ذمہ داری عاید ہوتی ہے؟

پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک اپنی لڑکھڑاتی معیشت کے ساتھ کورونا جیسے مہلک وائرس کے اثرات سے ابھی پوری طرح نکل نہ پایا تھا کہ طوفانی اور سیلابی ریلوں نے گھیر لیا۔ اس افراتفری کے عالم میں ابھی تک سیلاب کی تباہ کاریوں کے حتمی گوشوارے تو مرتب نہیں کیے جا سکے، تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کی تقریباً چار کروڑ کی آبادی متاثر ہوئی ہے، جس میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک ہزار سے زائد قیمتی جانیں، لاکھوں گھر، لاکھوں مویشی، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں، سینکڑوں مربع پر پھیلے پھلوں کے باغات، کئی شہروں میں دکانیں، ہوٹلز اور ذرائع معاش اس طوفان کی نذر ہو گئے۔

اس آزمائش کو ہم اپنی عقل کے مطابق حادثاتی یا ناگہانی کہہ سکتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ اللہ تعالی کا فیصلہ تھا۔ یقیناً ہم سے حقوق اللہ و حقوق العباد میں ضرور کوتاہیاں ہوئیں، شرعی کام میں حیل و حجت سے بھی کام لیا، قرآن و سنت سے ہماری زندگیاں ٹکراتے ہوئے گزریں، ہماری مساجد ویران ہیں، قدم قدم پر ناشکری کرتے رہے، تکبر کا مرض بھی پایا جاتا ہے، دوسروں کے ساتھ ظلم و ناانصافی بھی کرتے ہیں، رشتہ داروں سے قطع تعلقی بھی ہمارے ہاں پائی جاتی ہے، بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے، زنا اور شراب کو حلال خیال کیا جاتا ہے، زکوۃ کی ادائیگی شرعی اصولوں مطابق نہیں کی جاتی۔

شریعت کے مطابق فیصلے بھی نہیں کیے جاتے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فریضے سے بھی ہم غافل ہیں، یقینًا یہ سارے وہ کام ہیں جو اللّٰہ کے غیض و غضب کو دعوت دینے اور اللہ کی شمشیرِ انتقام کو بے نیام کرنے والے ہیں، لیکن بہ ایں ہمہ یہ نازک وقت ان حالات کے اسباب و وجوہات تلاش کرنے اور اس نوع کے بحث و مباحثے کا نہیں۔ اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔

ایمان والوں کے لیے اللہ کا یہ دستور بھی ہے کہ انہیں اس دنیا میں مختلف آزمائشوں سے گزار کر ان کا امتحان لیا جاتا ہے۔ بلکہ قرآن نے تو واضح اعلان کیا کہ "اے ایمان والو! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم بس اسی طرح جنت میں داخل ہو جاؤ گے؟ حالانکہ تم پر ابھی ویسے حالات نہیں آئے، جیسے پہلے لوگوں پر بیماریوں، پریشانیوں اور تکلیفوں کی صورت میں آئے، جس سے انہیں جنجھوڑ کر رکھ دیا گیا۔” (بقرہ)

سورۂ بقرہ میں ہی ایک دوسرے مقام پر تاکید اور تفصیل کے ساتھ اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ "ہم تمہیں خوف اور بھوک میں مبتلا کرکے اور مال و دولت، جانوں اور پھلوں میں کمی لا کر تمہیں ضرور آزمائیں گے، ایسے موقع پر جو لوگ صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کے لیے خوشخبری ہے۔”ایسے قیامت خیز موقع پر سوال یہ نہیں کہ ایسی قدرتی آفات کیوں آتی ہیں؟ اور ایسی آزمائشوں کی وجوہات و اسباب کیا ہیں؟ سوال یہ ہے کہ ایسے موقع پر سیلاب سے بچ جانے والوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ آزمائش کی اس گھڑی میں ہمیں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے؟ہماری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ ہمیں ان متاثرین کی مشکلات ، تکالیف اور مصائب کا پورا احساس ہونا چاہیے۔

یہ سوچنا چاہیے کہ اگر خدانخواستہ ان کی جگہ ہم ہوتے تو ہم پر کیا گزرتی؟ تب ہمارے جذبات و احساسات کیا ہوتے؟ گویا مصیبت کی اس گھڑی میں ہمیں سیلاب زدگان کی تکالیف کا شعور و احساس ہونا چاہیے۔ یہی وہ چیز ہے جو دوسروں کے ساتھ ہمدردی، خیرخواہی، باہمی امداد اور ضرورت مندوں کے ساتھ تعاون کے کئی راستے کھول دیتی ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ "مومن آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں، جب جسم کا ایک حصہ تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم اس کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔”

اس لیے ہمیں ان کے دکھوں اور غموں کو محسوس کرنا ہوگا۔ ویسے تو متاثرین کی پوری طرح بحالی اور ان کی نئی آبادکاری کے لیے طویل اور صبر آزما عرصہ درکار ہے، تاہم اس وقت سب سے زیادہ اہم چیلنج کم سے کم نقصان کے ساتھ متاثرین کی محفوظ مقامات پر عارضی بنیادوں پر آبادکاری، شب و روز گزارنے کے لیے خوراک و راشن کی فراہمی اور صحت و صفائی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے عارضی ڈسپنسریاں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

اس مقصد کے لیے حکومت اور عوام کو چاہیے کہ ترجیحی بنیادوں پر اس پہلے مرحلے پر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ قیمتی جانیں بچائی جا سکیں اور عارضی ٹھکانوں میں ان کی بنیادی ضروریات بھی پوری ہو سکیں۔ خصوصًا ایسے مواقع پر غذائی قلت اور صحت و صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث بچوں کی جانیں ضائع ہونے اور نشوونما متاثر ہونے سے انسانی المیے جنم لیتے ہیں۔

اس لیے عوامی خدمت کے لیے قائم کیے گئے قابل اعتماد رفاعی اداروں اور دینی تنظیموں کے ساتھ مالی تعاون کرکے ان کا ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہے، تاکہ متاثرین کی نقل مکانی کے لیے وسائل، عارضی آبادکاری کے لیے خیموں، شب و روز گزارنے کے لیے غذا اور مریضوں کے علاج معالجہ کا بندوبست کیا جا سکے۔ اس وقت ہماری زکوۃ، صدقہ و خیرات اور عطیات کا یہ ایک بہترین مصرف بھی ہے اور انسانی ہمدردی کا تقاضا بھی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button