خوشدلی سے آوارہ نوجوان راہ راست پر آ گیا
یہ واقعہ ایک عرب ملک میں پیش آیا۔ اس کے راوی کہتے ہیں : میں بازار کی ایک جانب جا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان ایک لڑکی کا تعاقب کر رہا ہے ۔ اُ س پر جملے کس رہا ہے ۔ اس سے بیہودہ مذاق کر رہا ہے ۔ ہر طرح سے اُسے زچ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لڑکی بے چاری ڈری ‘ سہمی تیز تیز قدم اٹھاتی اپنے دھیان میں چل رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر میرے دل کو دھچکا لگا۔ میں نے سوچا کہ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ شریف زادیوں کے لیے گھر سے نکلنا مشکل ہو رہا ہے۔ مجھے گاڑی سے اُتر کر اس نوجوان کو سمجھانا چاہیے‘ پھر مجھے خیال آیا کہ اگر نوجوان نے جواب نے بدتمیزی کی تو پھر میں کیا کروں گا؟ میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ نوجوان کو سمجھانے کے لیے گاڑی سے اتروں یا نہ اُتروں ۔ جب میں نے دوبارہ لڑکی کی حالت پر نظر ڈالی تو میں نے گاڑی سے اُتر کر اسے سمجھانے کا پکا ارادہ کر لیا۔ جیسے ہی میں گاڑی ایک جانب کھڑی کر کے اُن کی طرف گیا ‘ لڑکی تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی وہاں سے نکل گئی جب کہ لڑکا بہت زیادہ گھبرا گیا۔ اُس نے سمجھا کہ شاید میرا تعلق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے بنائے گئے حکومتی ادارے سے ہے اور میں اسے گرفتار کرنے کے لیے گاڑی سے اترا ہوں۔
میں نے اُسے سلام کیا اور اُس کا ڈر دور کرنے کے لیے کہا: میرے پیارے بھائی! میرا تعلق پولیس سے نہیں ہے۔ میں تو صرف ایک مسلمان بھائی کے طور پر آپ سے بھلائی اور خیر خواہی کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ کیا ہم کسی جگہ بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟ خلاف توقع وہ نوجوان خوشدلی سے کہنے لگا: ضرور ‘ ضرور! کیوں نہیں۔ پھر ہم ایک مناسب جگہ دیکھ کر بیٹھ گئے۔ میں نے اُسے آخرت میں جوابدہی کے بارے میں مختلف مثالیں دے کر سمجھایا۔ اُسے اللہ تعالیٰ سے تعلق کے بارے میں نصیحت کی ۔ نبیٔ کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک دو مثالیں دیں۔ اللہ تعالیٰ نے میری اس گفتگو میں اتنا اثر پیدا کر دیا کہ اُس نوجوان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اُس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا اور حتی الوسع اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے گا۔ پھر ہم نے اپنے موبائل نمبرز کا تبادلہ کیا اور رابطے میں رہنے کے وعدے کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔
دو ہفتوں بعد میرے دل میں خیال آیا کہ اُس نوجوان سے رابطہ کرنا چاہیے ۔ اُس کا حال احوال پوچھنا چاہیے۔ یہ صبح کا وقت تھا۔ میں نے اُسے فون ملایا۔ دوسری طرف سے اسی نوجوان کی اپنائیت سے بھرپور آواز سنائی دی ۔ میں نے پوچھا: آپ نے مجھے پہچانا؟ اس کے جواب میں وہ کہنے لگا: میں اپنے محسن کو کیسے بھول سکتا ہوں! میں اس شخص کی آواز کیسے بھول سکتا ہوں جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی! پھر ہم نے عصر کے وقت ملنے کا وعدہ کیا۔ اس نوجوان نے اصرار کر کے مجھے اس بات پر راضی کر لیا کہ یہ ملاقات اس کے گھر میں ہو گی۔ میں چاہتا تھا کہ وہ نوجوان میرے گھر آئے یا ہم کسی ریستوران میں ملیں‘ لیکن اس نوجوان نے میری ایک نہ چلنے دی۔ آخر میں نے ہتھیار ڈال دیے اور طے پایا کہ یہ ملاقات اس نوجوان کے گھر میں ہو گی۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میرے گھر میں کچھ مہمان آ گئے۔ میں نے انہیں بتایا بھی کہ عصر کے بعد مجھے ایک دوست سے ضروری ملاقات کرنی ہے لیکن پھر بھی مہمانوں کو رخصت کرتے کرتے ایک گھنٹے کی تاخیر ہو گئی۔
میں عصر کے بجائے مغرب کے قریب اُس نوجوان کے گھر پہنچا۔ میں نے دروازے پر دستک دی ۔ پختہ عمر کے ایک شخص نے دروازہ کھولا۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ اُس نوجوان کا والد ہے۔ علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا: آپ کا بیٹا گھر پر ہے؟ اُس نے حیرت سے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے سوچا کہ شاید میں غلط جگہ پر آ گیا ہوں۔ میں نے اُس نوجوان کا نام لے کر کہا : کیا اُس کا گھر نہیں؟ اُس کا والد انتہائی بجھے لہجے میں کہنے لگا : ہاں یہ اُسی کا گھر ہے۔
پھر آپ کو میرے سوال پر اتنی حیرت کیوں ہوئی؟
اس کا باپ کہنے لگا: واقعی آپ کو کچھ پتہ نہیں؟ میں نے عرض کیا : کیا مطلب؟ آپ کیسی گفتگو کر رہے ہیں؟ آپ تو پہیلیاں بجھوا رہے ہیں۔ اُس نوجوان کے والد نے بھیگی آنکھوں اور لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ کہا: وہ نوجوان تو اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ مجھے یہ سن کر شدید دھچکا لگا۔ میں نے کہا: کب؟ کیسے؟ کیا کوئی ایکسیڈنٹ ہو گیا؟ ابھی صبح ہی میری اُس سے بات ہوئی تھی ‘ وہ بالکل نارمل تھا۔ اس کے باپ نے انتہائی آرزدہ لہجے میں کہا: آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ وہ بظاہر بالکل نارمل اور ٹھیک تھا ۔
معمول کے مطابق اپنے امور نمٹا رہا تھا۔ اُس نے ظہر کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کی۔ نماز کے بعد کافی دیر تک تلاوت قرآن کرتا رہا۔ پھر گھر واپس آیا اور قیلولہ کرنے لیٹ گیا۔ اور کھانا کھائے بغیر ہی سو گیا۔ ہم نے اُسے دوپہر کا کھانا کھلانے کے لیے اٹھانا چاہا ‘ لیکن وہ تو ابدی نیند سو چکا تھا۔ یہ کہہ کر اُس کے باپ نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔
پھر اُس کے باپ نے بتایا: میرا یہ بیٹا لااُبالی اور انتہائی آوارہ مزاج تھا۔ ہمارے سمجھانے بجھانے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ وعظ و نصیحت سے چڑ جاتا تھااور طغیان‘ سرکشی اور معصیت کی دلدل میں اور زیادہ دھنسنے لگتا۔ دو ہفتے پہلے اس کی حالت یکسر بدل گئی ۔ اس نے گناہ اور معصیت کے کاموں سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ پابندی کے ساتھ پانچوں نمازیں مسجد میں باجماعت ادا کرنا شروع کر دیں۔ پہلے ہمارے اصرار کے باوجود کبھی نماز کے لیے نہیںاٹھتا تھا ‘ لیکن اب یہ کیفیت تھی کہ وہ ہمیں فجر کی نماز کے لیے بیدار کیا کرتاتھا۔ پھر اس نوجوان کا والد چونک اُٹھا اور مجھ سے پوچھنے لگا: آپ میرے بیٹے کو کب سے جانتے ہیں؟ میں نے کہا: کوئی دو ہفتے سے ۔ پھر وہ بے صبری سے پوچھنے لگا: کیا آپ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے اسے نصیحت کی تھی؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر وہ مجھے کہنے لگا: آپ مجھے اجازت دیں میں آپ کی پیشانی کا بوسہ لینا چاہتاہوں۔ آپ نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا کہ میرے بیٹے کو سیدھی راہ پر ڈال دیا۔ (اکثر من الف قصۃ و قصہ ‘ تالیف: عواض ھشام‘ ص : 339، 340)