سیلاب متاثرین کے دکھوں میں کیسے شریک ہوں؟

پاکستان کے چاروں صوبے سیلاب کی زد میں ہیں، بلوچستان، پنجاب کے جنوبی اضلاع، خیبرپختونخوا کے بالائی علاقے اور سندھ کے بیشتر علاقے سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں، سیلاب سے متاثرین کی درست تعداد سامنے نہیں آ سکی ہے، البتہ ابتدائی معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالیہ سیلاب کا شمار پاکستان کی تاریخ میں آنے والے چند بڑے سیلابوں میں ہو گا۔ مشکل کی اس گھڑی میں سیلاب متاثرین کی مدد کرنے والا ہر وہ شخص جو کسی بھی اعتبار سے امدادی کاموں میں شامل ہے قابل تعریف ہے، تاہم متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان لے کر جانے والے افراد قوم کے حقیقی ہیروز ہیں۔ فلاحی کاموں میں عملی طور پر حصہ لینے والے افراد کا تعلق حکومت سے ہو، امدادی تنظیموں سے ہو یا انفرادی سطح پر کوئی سامان کر لے جا رہا ہے ایسے تمام افراد قوم کا سرمایہ ہیں۔ البرہان کے سربراہ مذہبی سکالر عدنان کاکا خیل کا اپنے ساتھیوں سمیت بذات خود سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے عملی طور پر امدادی سرگرمیوں میں شریک ہونا اور متاثرہ علاقوں میں پہنچنا قابل تقلید عمل ہے، اسی طرح الخدمت فاؤنڈیشن، بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ اور اُمہ ویلفیئر ٹرسٹ جیسی نامور امدادی تنظیموں کے پورے نیٹ ورک کا سرگرم ہونا اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان مردہ ضمیروں کی سرزمین نہیں ہے۔ فلاحی کاموں میں شامل افراد اور تنظیموں نے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی قوم مشکل کی گھڑی میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ پاکستانی قوم کا مثبت چہرہ اور مجموعی تشخص ہے یہی وجہ ہے کہ متاثرہ علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے مالیت کا امدادی سامان پہنچایا جا رہا ہے، تاہم اب بھی کئی علاقے اور ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں امدادی ٹیمیں نہیں پہنچ پائی ہیں، کیونکہ فلاحی تنظیموں کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں جس سے پورے متاثرہ علاقے کا جائزہ لے سکیں، امدادی ٹیموں کے رضا کار چھوٹی کشتیوں پر جا کر پانی میں پھنسے لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ ہیلی کاپٹر اور سیٹلائٹ کا استعمال کرتے ہوئے پانی میں پھنسے لوگوں کو بحفاظت نکالنے کیلئے ریاستی سطح پر بندوبست کرے۔

متاثرہ علاقوں کی جو جگہیں امدادی ٹیموں اور حکومت کی نظروں سے اوجھل رہ گئی ہیں ایسی جگہوں کے بارے میں اگر کسی کو کچھ معلومات ہیں تو اسے حکومتی اداروں اور فلاحی تنظیموں کے علم میں لانا چاہئے تاکہ انہیں امداد فراہم کی جا سکے، مگر سوشل میڈیا پر گردش کرتی چند تصاویر یا ویڈیوز کو دیکھ کر منفی پروپیگنڈہ کر کے پوری قوم کو بے ضمیر کہہ دینا درست رویہ نہیں ہے۔ ایسا کام بالعموم سوشل میڈیا سے جڑے افراد کر رہے ہیں جو حقائق سے بے خبر ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیلاب قدرتی آفت ہے جسے ٹالنا آسان نہیں ہے، نہ ہی حکومتوں کے بس کی بات ہے کہ وہ منصوبہ بندی سے سیلاب سے بچ سکیں، حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک بھی سیلابی صورتحال سے محفوظ نہیں رہ سکے، پاکستان کی طرح اس سال اکثر ممالک میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں، عرب امارات اور یورپی ممالک کے جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں اس سے جانی و مالی نقصان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

سیلاب کا معاملہ یہ ہے کہ بالائی علاقوں میں چند روز پہلے ہونے والی بارشوں کا پانی ندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے نشیبی علاقوں میں جاتا ہے، جو عموماً تباہی کا باعث بنتا ہے، بالائی علاقوں اور میدانی علاقوں میں سیلاب کی تباہ کاری مختلف نوعیت کی ہوتی ہے، بالائی علاقوں میں سیلابی ریلے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں یہ نقصان معمولی نوعیت کا ہوتا ہے اس میں عام طور پر جو آبادی ندی نالوں کے اردگرد ہوتی ہے وہ پانی کی شدت برداشت نہ کرنے کی وجہ سے کٹاؤ میں آ جاتی ہے یوں ندی نالوں کے آس پاس کے علاقے متاثر ہوتے ہیں اور پانی تیزی کے ساتھ ڈھلوان کی طرف بہہ جاتا ہے جو کئی دن کے بعد میدانی علاقوں میں پہنچتا ہے، ایسی صورتحال میں میدانی علاقوں میں نقصان کا خدشہ دو وجہ سے بڑھ جاتا ہے ایک یہ کہ بھارت اپنے دریاؤں کا پانی چھوڑ دیتا ہے اس سے سیلاب کے خطرات ہوتے ہیں دوسرا یہ کہ سیلاب کے ساتھ ساتھ بارش ہونے لگتی ہے، موجودہ سیلاب میں تباہی کی شدت کو بڑھانے کیلئے سارے عوامل پائے گئے ہیں، کئی کئی فٹ پانی جمع ہے، اوپر سے وقفے وقفے سے بارش بھی ہو رہی ہے۔ جب میدانی علاقے میں بڑے پیمانے پر سیلاب آتا ہے تو فوری ریلیف کی صورت نہیں ہوتی ہے، بحالی کیلئے کئی دن درکار ہوتے ہیں، جب لوگ متاثرین کو تکلیف میں دیکھتے ہیں تو تقاضا کرتے ہیں کہ حکومت متاثرین کی فوری بحالی کیلئے اقدامات اٹھائے۔

دوسری طرف حکومت چاہتی ہے کہ پہلے مرحلے میں نقصانات کا جائزہ لے کر متاثرین کا ڈیٹا جمع کر لیا جائے اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کوئی متاثرہ خاندان امداد سے محروم نہ رہے اور فنڈز کی تقسیم میں شفافیت کیلئے بھی ضروری ہے کہ ریکارڈ رکھا جائے۔ بہت سے لوگ اسے سمجھ نہیں پاتے اور حکومت پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ شاید میں بھی تنقید کرنے والوں میں شامل ہوتا مگر میں نے کچھ عرصہ قبل اُمہ ویلیفئر سیٹ اپ دیکھا، مجھے ان کے فنڈز کی تقسیم کا طریقہ کار بہت پسند آیا۔ ایک مرتبہ چیریٹی فنڈز کی تقسیم کے موقع پر بیوگان کو راشن تقسیم کیا جانا تھا، طے شدہ وقت پر پانچ سو خواتین میں راشن تقسیم کیا جانا تھا مگر موقع پر سات خواتین جمع ہو گئیں، انتظامیہ نے پانچ سو خواتین کو ایک سائیڈ پر بٹھایا، ایک ایک کر کے ان کے شناختی کارڈ چیک کئے اور انہیں راشن دیا جانے لگا، منتظم نے بتایا کہ ان خواتین کی پہلے ہمارے پاس رجسٹریشن ہو چکی ہے بس تصدیق کر کے انہیں راشن دیا جا رہا ہے۔کئی ایسی خواتین جن کا ریکارڈ ان کے پاس نہیں تھا وہ اپنی مجبوری بتا کر راشن کے حصول کیلئے اصرار کر رہی تھیں مگر منتظمین کی طرف سے انکار کیا جاتا کہ ایسا ممکن نہیں ہے، ہمارے پاس جتنی رجسٹریشن تھی اس کے حساب سے راشن پیک آئے جو تقسیم کر دیئے گئے ، اگر آپ واقعی بیوہ اور مستحق ہیں تو آپ پہلے مرحلے میں اپنی رجسٹریشن کرائیں، آپ کی انکوائری ہوگی اور جب ہماری ٹیم کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ واقعی مستحق ہیں تو اگلی بار آپ کو راشن فراہمی میں شامل کر لیا جائے گا۔ مجھے یہ سسٹم دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ مستحق کی امداد کے ساتھ ساتھ فنڈز کی شفافیت کا خیال بھی رکھا جا رہا ہے۔ میرے خدشات کی بنیادی وجہ اکتوبر 2005ء میں آنے والے زلزلہ زدگان کی مدد کرتے ہوئے وہ تلخ تجربات تھے جن میں سامان کو تقسیم کرتے ہوئے بھگدڑ مچ جاتی اور جس کے ہاتھ میں جو چیز آتی وہ لے جاتا، کئی لوگ مین روڈ پر آ جاتے اور ٹرکوں کو دیکھ کر سامان لوٹنا شروع کر دیتے، اس کا نقصان یہ ہوتا کہ دور دراز علاقوں کے متاثریں محروم رہنے لگے، اس وقت میں الرشید ٹرسٹ کے ساتھ بطور رضا کار کام کر رہا تھا، جس کا سیٹ اپ پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا، لوگ الرشید ٹرست پر اندھا اعتماد کرتے تھے، روزانہ کی بنیاد پر امدادی سامان سے لدے درجنوں ٹرک رووانہ کئے جاتے، سامان لوٹنے کے کئی ناخوشگوار واقعات کو دیکھ کر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا کہ کاش! ایسا سسٹم بنا دیا جائے جس سے سارے متاثرین کا ریکارڈ جمع کیا جائے اور ہر خاندان کے نقصان کا تخمینہ لگا کر اس کے ساتھ مالی تعاون کیا جائے، بعدازاں انہی تلخ تجربات کی وجہ سے کئی امدادی تنظیموں نے ڈیٹا جمع کرنا شروع کیا۔

چاروں صوبوں میں لاکھوں لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں گھر منہدم ہوئے ہیں، جانی و مالی نقصان بڑے پیمانے پر ہوا ہے، چند دن بعد جب درست اعداد و شمار سامنے آئیں گے تو متاثرین کی تعداد شاید کروڑوں تک پہنچ جائے۔ ایسے حالات میں امدادی کام بنیادی طور پر تین مرحلوں میں تقسیم ہونے چاہئے۔ پہلے مرحلے میں متاثرین کو پانی سے نکال کر خیموں تک پہنچانا، جاں بحق افراد کی تدفین اور علاج کی سہولیات فراہم کرنا ہنگامی بنیادوں پر ہونا چاہئے، دو وقت کے کھانے کا بندوبست بھی پہلے مرحلے میں شامل ہونا چاہئے۔ دوسرے مرحلے میں متاثرین کیلئے خیمہ بستیاں آباد کرنا کیونکہ پانی جلد ختم نہیں ہو گا، متاثرین کو کئی دن خیموں میں گزارنے پڑ سکتے ہیں، تیسرا مرحلہ حتمی ہو گا اس لئے یہ ذمہ داری ریاست کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے، متاثرین کا مکمل ڈیٹا جمع کر کے جاں بحق افراد کے ورثاء کیلئے مالی پیکج، منہدم گھر کیلئے الگ پیکج جبکہ جزوی طور پر گھروں کا نقصان، مال مویشی اور زرعی نقصان کا الگ پیکج طے کیا جائے، امدادی ٹیمیں اور ان کے رضا کار متاثرین کو فوری ریلیف فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن متاثرین کی مکمل بحالی کیلئے بڑے پیمانے پر فنڈز کی ضرورت درکار ہو گی جسے ایک منصوبہ بندی کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے۔ جو افراد مالی تعاون کے ذریعے متاثرین سیلاب کے دکھوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں وہ جلد بازی میں اپنے طور پر کوئی قدم اٹھانے کی بجائے کسی معتبر ادارے کا انتخاب کریں، جو مکمل شفافیت کے ساتھ آپ کے فنڈز کو مستحقین تک پہنچانے کا فریضہ انجام دے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button