عین نجم، زمانہ قدیم میں حاجیوں کی قیام گاہ
الحساء کے چند روزہ قیام میں ہم نے جو ایک اور قدیم مقام دریافت کیا تھا، دریافت کرنے سے مراد جس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا وہ یہاں ایک تاریخی قیام گاہ ہے، ماضی میں سفری سہولیات ایسے میسر نہ تھیں، تو لوگ پیدل یا اونٹوں و گھوڑوں پر سفر کرتے تھے، یہی سفری ذرائع حج و عمرہ کے لئے مستعمل تھے، چونکہ آج کی کئی خلیجی ریاستوں کے مسلمان بھی حج و عمرہ کے لئے پیدل یا اونٹوں پر ہی مکہ و مدینہ آتے تھے ، آج کے کویت کے لئے زمینی راستہ تو خیر حفر الباطن سے براہ راست ریاض کی جانب نکلتا ہے، مگر متحدہ عرب امارات کی ریاستوں اور قطر کے لئے سعودی عرب کا سفری راستہ بالترتیب سرحدی علاقوں بطحاء و سلوی سے ہی ہے۔ اس وقت بھی یہی زمینی راستہ مستعمل تھا، امارات و قطر سے قریب سات سو کلومیٹر کے لگ بھگ الحساء کا راستہ ہے۔
چونکہ پیدل یہ فاصلہ کافی ہے، خصوصا اس وقت جب لوگ پیدل یا اونٹوں پر سفر کرتے تھے۔ لیکن الحساء میں آج بھی ایک قدیم تاریخی مقام موجود ہے جس کا نام "عین نجم” ہے جس کی معلوم تاریخ کم ازکم تین صدیاں ہیں، یہ جگہ قریب کی عرب ریاستوں کے آنے والے زائرین کے قافلوں کے لیے ملاقات اور آرام کی جگہ کے طور پر حج کے موسم میں ایک تاریخی مقام رہا ہے۔ اس مقام کے ساتھ اس خطے کی پرانے ادوار کی کئی یادیں وابستہ ہیں اور یہ قریبی عرب ملکوں کے ساتھ بیت اللہ کے سفر میں خصوصا ایام حج کے ایک تاریخی مقام کی حیثیت رکھتا ہے، الحساء تو ویسے بھی نخلستان کا شہر ہے یہاں پانی کے چشموں اور زرعی کھیتوں میں گھرا یہ مقام دوسری ریاستوں کے حجاج کی ملاقات اور ان کے درمیان اپنے اپنے راستوں پر چلے جانے کی وجہ سے ایک مرکزی رابطے کی حیثیت بھی رکھتا تھا۔
ضلع الشرقیہ کے معروف مجلے میں اس جگہ کے تاریخی ریفرنسز مع تصاویر موجود ہیں، "عین” کا لفظ عربی میں پانی کے چشمے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ الحساء میں یہ چشمہ عین نجم اپنے گندھک کے پانی کی وجہ سے بھی معروف رہا ہے، جس کا پانی تقریبا تین دہائیوں پہلے ختم ہوچکا ہے۔ قدیم خلیجی ریاستوں کے زائرین جب زمینی راستے سے آتے تھے اور مکہ کے سفر کے دوران انہیں الاحساء سے گذرنا ہوتا۔ خاص طور پر عمان، امارات اور قطر کے زائرین کے لیے یہی راستہ تھا، اس وقت یہ ایک اقتصادی اور سماجی جگہ بھی تھی۔ مقامی لوگ نہ صرف عین نجم میں حجاج کا استقبال یا انہیں الوداع کرتے بلکہ یہ ان زائرین کے لئے ایک آرام کی جگہ تھی جہاں حجاج آرام کرتے تھے اور یہاں کے میٹھے پانی سے استفادہ کرتے تھے۔ مقامی لوگوں کے لئے کاروباری طور پر بھی یہ ایک منفعت بخش جگہ تھی، اور مقامی لوگ ان قافلوں کو کھانا بھی مہیا کیا کرتے تھے۔
الحساء میں یہ مقام آج بھی موجود ہے، بلکہ اس کی قدیم اور موجود تصایر میں یہ جگہ نظر بھی آرہی ہوگی، ماضی میں یہاں پر باقاعدہ رات کے قیام کے لئے کمرے بنائے گئے تھے، جنہیں زائرین اپنی سہولت کے مطابق کرائے پر لے لیا کرتے، لیکن حج کے ایام میں یہاں پر آنے والے زائر حاجی اپنے قیام کے لیے خود بھی خیمے بنالیتے تھے اور کچھ دن وہاں قیام کرتے تھے، جہاں پر عازمین حج دوسرے قافلوں سے ملاقاتیں کرتے تھے، جن سیاحوں نے اس خطے کا ماضی میں سفر کیا ہے ان کے سفر ناموں میں الاحساء کے مقامی افراد کا ذکر تعاون، محبت اور سخاوت کے جذبے کے ساتھ ملتا ہے۔ الحساء دوسرے صحرائی علاقوں کی نسبت نعمتوں سے مالا مال علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ حجاج کرام کی آمدو رفت کے ان کے لیے کھانے بنانے اور ان کے آرام و راحت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔
نوٹ: مقامی طور پر اگر کوئی عین نجم کو ڈھونڈھنے نکلے گا تو عام طور پر یہ اتنا معروف نہیں ہے۔ کیونکہ کچھ دہائیوں سے یہ سفری سہولیات کی وجہ سے اس علاقے کی حیثیت معدوم ہو چکی ہے۔