صحافی جمیل فاروقی کے آنسو کم ہمتی کی علامت
جب کسی صحافی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو اس کمیونٹی کا حصہ ہونے کے ناتے ہمیں بھی تکلیف ہوتی ہے، ہم اپنے تئیں اس کی مذمت کرتے ہیں، اور جہاں تک ممکن ہو سکے اظہار یکجہتی بھی کرتے ہیں مگر صحافی جمیل فاروقی کی آنکھوں میں آنسو اور بے بسی دیکھ کر اس کیلئے ہمدردی کے جذبات پیدا نہیں ہوئے کیونکہ وہ صحافت کرنے کی بجائے تحریک انصاف کے ترجمان اور وکیل بن چکے تھے، یہ راستہ انہوں نے اپنی مرضی سے اختیار کیا اب مشکلات سے ڈرنا کیوں؟ یہاں حمایت، جانبداری اور وکالت میں فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے میری طرح بہت سے لوگ جانبدار ہو سکتے ہیں کیونکہ انسان کیلئے مکمل طور پر غیر جانبدار رہنا آسان نہیں ہوتا ہے اور یہ آپ کا جمہوری حق بھی ہے کہ آپ کسی جماعت کی حمایت کر کے اس کے ساتھ وابستگی کا اظہار کریں۔ اس لئے جانب درست جبکہ ترجمانی اور وکالت غلط قرار پائے گی۔
کئی صحافی دوست مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں کیونکہ اس وابستگی کے بدلے سیاسی جماعتیں انہیں حق خدمت ادا کرتی ہیں، کئی دوستوں کے مکان کا کرایہ اور بچوں کی فیس نکل آتی ہے، مالی مفاد تقاضا کرتا ہے کہ جانبداری سے کچھ زیادہ کیا جائے، صحافی دوست سیاسی جماعتوں کی گڈ بک میں آنے کیلئے مختلف حیلے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اب تو ہر سیاسی جماعت نے باقاعدہ طور پر صحافیوں کی خدمات حاصل کرنا شروع کر دی ہیں جو متعلقہ سیاسی جماعت کے گوبر کو زعفران ثابت کرنے پر زمین آسمان کے قلابے ملانے سے گریز نہیں کرتے ہیں، بلکہ پورے کے پورے میڈیا ہاؤس فروخت ہونے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔
عوام میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ میڈیا انڈسٹری سے وابستہ 98 فیصد لوگ نہایت مشکل کی زندگی گزار رہے ہیں، جن کے حقوق کی بالعموم بات نہیں کی جاتی ہے، اس کے برعکس چند اینکر کروڑوں روپے ماہانہ وصول کرتے ہیں، میڈیا میں اب بھی کئی ورکرز مزدور کی اجرت سے کم پر کام کر رہے ہیں مگر یہ طبقہ اینکروں کی ترجیح میں شامل نہیں ہے تو پھر ہمیں کیا پڑی ہے کہ ایسے بے حس افراد کیلئے آنسو بہاتے پھریں۔
میری نظر میں جمیل فاروقی بہت ہی کم ہمت ثابت ہوا ہے، پرانے زمانے میں جب کوئی جنگ جو مخالف کی قید میں آ جاتا اور اس پر تشدد کیا جاتا تو وہ ہنس کر اسے برداشت کرتا اور تشدد کرنے والوں کا منہ چڑاتا کہ جتنا تشدد کرنا ہے کر لو، کیونکہ یہ بات انہیں شروع سے ذہن نشین کرائی جاتی تھی کہ ایسی مشکل صورتحال کا تمہیں سامنا کرنا پڑ جائے تو تم نے اپنے اعصاب پر قابو پانا ہے، یہی وجہ ہے کہ سپاہی کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا جاتا تھا تاکہ اس کے پاؤں ڈگمگا نہ جائیں، کم ہمتی کو اس قدر بڑا عیب سمجھا جاتا کہ اگر کسی سپاہی کے زبان کھولنے کا خدشہ ہوتا تو اپنے کسی بندہ کو بھیج کر اسے قتل کرا دیا جاتا۔
کراچی ایئر پورٹ پر جمیل فاروقی کی حالت دیکھ کر بے ساختہ ایک جملہ زبان سے نکلا کہ شعلوں سے کھیلنے میں ڈر کیوں؟ میری نظر میں جمیل فاروقی کو رونا نہیں چاہئے کہ یہ بزدلی ہے، اسے سینہ سپر ہو کر سب کچھ برداشت کرنا چاہئے، اب آزادی اظہار رائے کے پیچھے چھپنا اور دوسرے صحافیوں سے توقع کرنا کہ وہ اس کی حمایت میں کھڑے ہوں گے ایسی سوچ احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے۔ اگر کسی کو آپ کے حق میں آواز اٹھانی چاہئے تو وہ تحریک انصاف اور اس کے کارکنان ہیں اگر انہوں نے بھی مشکل کی اس گھڑی میں آپ کو تنہا چھوڑ دیا تو یوں سمجھیں کہ آپ نے کچھ بھی نہیں کمایا ہے۔