مثالی سماج کی تشکیل میں تین شعبوں کا کردار
ہمارا معاشرہ اپنی مشرقی روایات اور اسلامی اقدار سے جس تیزی کے ساتھ محروم ہوتا جا رہا ہے اور جس طرح ہمارے سماجی رویوں میں عدم برداشت، غصہ، جذباتیت، اشتعال، خودپسندی، تشدد، انتقام، تعصب اور نفرت جیسی برائیوں کا مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، یہ ہمارے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے اور ہر حساس شخص کے لیے فکرمندی کا باعث ہے۔ لیکن ان معاشرتی برائیوں کا حل اور علاج کیسے کیا جاسکتا ہے؟
منبر و محراب:زیادہ دور نہیں ماضی قریب میں مسجد ہمارے معاشرے کا مرکزی مقام ہوتا تھا، جہاں پنجگانہ نماز و عیدین کی ادائیگی اور بچوں کی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ لوگوں کے تنازعات حل ہوتے اور لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والی ناچاقیوں کا تصفیہ ہوتا تھا۔ اس طرح عوام اپنے دینی و دنیاوی معاملات بارے مشاورت کرنے کے لئے امام مسجد کے پاس حاضر ہوتے تھے۔
دوسری طرف منبر و محراب جیسے مقدس و مؤثر منصب پر فائز علمائے کرام وعظ و نصیحت کے ذریعے عوام کی اخلاقی، دینی اور عملی راہنمائی کرتے تھے۔ غرض دونوں طرف سے اعتماد کی فضا قائم تھی، جس کے مفید ثمرات معاشرے کو حاصل ہوتے تھے۔ حالیہ چند سالوں میں اس دو طرفہ اعتماد اور وابستگی میں واضح کمی آئی ہے، جس سے معاشرے کو دینی، اخلاقی اور عملی اعتبار سے کافی نقصان ہوا ہے۔
ایسے وقت میں عوام اور علمائے کرام کو اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے سابقہ اعتماد کو بحال کرنا ہوگا تاکہ دونوں کے درمیان پائے جانے والے فاصلے کو ختم کیا جا سکے اور یہ مقام دوبارہ سرچشمۂ رشد و ہدایت اور مرکز اصلاح و تربیت بن سکے۔
تعلیمی ادارے:تعلیمی اداروں کے بھی سماج پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اندازے کے مطابق آبادی کا ایک چوتھائی حصہ تعلیمی اداروں سے وابستہ ہے۔ اگر تعلیمی ادارے اپنے تعلیمی معیار کی بہتری کے ساتھ ساتھ نسلِ نو کی تربیت پر بھی خاطر خواہ توجہ دیں تو ہمارے سماج میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔
سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذۂ کرام اپنی تنخواہوں کے دائرے اور نجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ فیسوں کی وصولیابی کی حکمت عملی سے باہر نکل کر بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ اگر نسلِ نو کی فکری اور اخلاقی تربیت کی ذمہ داری نبھائیں تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ثابت ہو سکتا ہے اور ایک پوری نسل کی تربیت ہو سکتی ہے، جس سے معاشرے پر براہ راست دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔
ذرائع ابلاغ:عوام کی ذہن سازی اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ انتہائی مؤثر ہتھیار ہے۔ ذرائع ابلاغ کا درست استعمال بھی معاشرتی اصلاحات کے لیے انتہائی اہم ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کے ذرائع ابلاغ خصوصًا سوشل میڈیا پر جو مواد گردش کر رہا ہوتا ہے، اس کا علمی تخلیقات، سائنس و ٹیکنالوجی، غریبوں کی مدد اور ضرورت مندوں سے تعاون کے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہوتا، بلکہ صرف ایک ہی سیاست نامی سیارے کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے۔
حالانکہ عظیم اسلامی ورثہ اور تعلیمات رکھنے کے باوجود ہم ابھی تک ذرائع ابلاغ کا درست استعمال کرنا نہ سیکھ سکے۔ اس کے برعکس اگر یورپ و مغرب میں استعمال ہونے والے سوشل میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو وہاں سنجیدہ موضوعات ہی زیر بحث ہوتے ہیں۔ اس لیے ذرائع ابلاغ خصوصاً سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں سیاست کی بجائے معاشرے میں سماجی شعور کو فروغ دینے، عوامی مسائل اجاگر کرنے اور سبق آموز مواد نشر کرنے کے لئے اس ہتھیار کو استعمال کریں تاکہ ہمارا معاشرہ بہتری کی طرف گامزن ہو سکے۔
لہذا سماجی رویوں میں بہتری لانے، مشرقی روایات کو فروغ دینے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے مذکورہ تینوں شعبوں کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔ تب اسلامی کہلانے والا ہمارا معاشرہ اقوام عالم میں وقار حاصل کر سکے گا۔