شہباز گل، بیماری کا مذاق اڑانے والے ناپختہ ذہن
آج صبح پمز ہسپتال ( اسلام آباد ) کے کارڈک سینٹر میں اہلیہ کے چیک اپ کیلئے گیا تو میڈیا کی درجن بھر گاڑیاں دیکھ کر حیران رہ گیا، اہلیہ نے پوچھا یہ میڈیا کی گاڑیاں یہاں کیوں؟ شہباز گل۔ میری زبان سے فوری نکلا، پاس کھڑے پولیس والے نے اس کی تصدیق کر دی۔
ڈیوٹی پر مامور الیکڑانک میڈیا کے دوستوں سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ شہباز گل ہپستال میں ایڈمٹ ہیں انہیں دمہ کا عارضہ لاحق ہے طبیعت خراب ہونے پر انہیں ہپستال لایا گیا۔
سوشل میڈیا پر شہباز گل کی چند تصاویر سے اندازہ ہوا کہ ان کی طبیعت کافی بگڑ چکی ہے، جس حالت میں انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا اسے دیکھ کر فوراً ان کی صحت یابی کی دعا نکلی۔ کیونکہ میں ایک طویل عرصہ سے اپنی اہلیہ کے علاج کے سلسلے میں ہسپتالوں کے چکر کاٹ رہا ہوں اس لئے کسی کی بیماری کو بہت سنجیدہ لیتا ہوں۔
شہباز گل کیس سے جُڑے سیاسی مسائل سے بخوبی آگاہ ہوں لیکن انسانی جان کی قیمیت سیاسی مسائل سے کہیں بڑھ کر ہے، سو سیاست کو زیر بحث نہیں لانا چاہتا، ایسے موقع پر شہباز گل کی فیملی اور تحریک انصاف کے کارکنان پر کیا گزر رہی ہو گی اسے سمجھنا ہمارے لئے آسان نہیں ہے۔ خواتین طبعاً کمزور ہوتی ہیں اس لئے تحریک انصاف کی خواتین شہباز گل کی حالت دیکھ کر زیادہ جذباتی ہیں، ہونا بھی چاہئے کیونکہ ایسے مواقع پر لیڈر شپ کو تنہا چھوڑ دینا اخلاقی گراوٹ ہے۔
اس پس منظر کے بعد صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ جب دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین بیمار ہونے پر جیل سے ہسپتال جاتے تو تحریک انصاف کے ناپختہ اور پختہ ذہن سبھی اسے بہانے سے تعبیر کرتے کہ جیل سے فرار کیلئے بیماری کا ڈرامہ رچایا گیا ہے، کلثوم نواز کی بیماری پر کیا کیا باتیں نہیں کی گئیں۔
وقت نے تحریک انصاف کو غلطی سدھارنے کا موقع فراہم کیا ہے، ماضی میں کی گئی غلطی سے سبق سیکھ لیا جائے تو آگے کا سفر آسان ہو جاتا ہے ورنہ ہر کچھ عرصے کے بعد ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں سے چلے تھے۔
آج شہباز گل کی بیماری پر جو ہنس رہے ہیں کل ان کی بیماری پر کوئی ہنس رہا ہو گا، مولانا ابو الکلام آزاد نے تو کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، ہماری نظر میں سیاست کی آنکھ میں شرم اور حیا بھی نہیں ہوتی۔ خدارا کسی کی بیماری پر مذاق نہ اڑائیں ورنہ جب بیماری نے آپ کے گھر کی راہ دیکھ لی تو بہت روئیں گے۔