ترک خاتون کا قرآن پڑھنے کیلئے اضطرار

یہ واقعہ ایک عرب خاتون نے بیان کیا ہے۔ ان کے ساتھ یہ واقعہ حج کے دوران پیش آیا ۔ انہوں نے یہ واقعہ اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔ ممکن ہے اسے پڑھ کر کسی شخص کو ہدایت آ جائے اور وہ کتاب اللہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کر لے۔ آئیے انہی کی زبانی سنتے ہیں:

میں حرم مکی تھی۔ اچانک کسی خاتون نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا: حاجَّۃ! اس کے بولنے کے انداز سے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ کوئی عجمی خاتون ہے ۔ میں اُس کی جانب متوجہ ہوئی ۔ وہ درمیانی عمر کی ایک خاتون تھی۔ میرا خیال ہے کہ اُس کا تعلق ترکی سے ہو گا‘ وہ مجھے بہت بھلی لگی۔ اُسے دیکھتے ہی میرے دل میں اس کی محبت اُتر گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کس قدر حکمت اور صداقت پر مبنی ہے:
’’روحیں جمع شدہ لشکر ہیں۔ جو عالم بالا میں مانوس تھیں ‘ وہ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے مانوس ہیں اور جو وہاں ناموس تھے‘ وہ یہاں بھی نامانوس ہی ہیں۔‘‘ (صحیح البخاری : 3336)

وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی ‘لیکن صحیح طریقے سے عربی نہیں بول سکتی تھی۔ وہ ٹوٹی پھوٹی عربی میں کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی‘ مگر میں صحیح طور پر سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ وہ مصحف پکڑ لائی اور اس کی طرف اشارہ کر کے کچھ کہنے لگی جس کا مفہوم میں یہ سمجھ پائی: کیا تم قرآن پڑھ سکتی ہو؟

میں نے کہا: جی ہاں! یہ سنتے ہی اُس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں انتہائی پریشان ہو ئی کہ اسے کیا ہوا ہے۔ پھر وہ زار و قطار رونے لگی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اُس بے چاری پر کوئی بڑی آفت ٹوٹ پڑی ہو۔ میں نے کہا: میری بہن ! بتاؤ تو سہی کیا ہوا ہے؟

اس نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا: مجھے لگتا ہے کہ میں قرآن مجید پڑھے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائوں گی۔ میں نے ابھی تک قرآن مجید نہیں پڑھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے قرآن مجید کیوں نہیں پڑھا؟ اس نے پھر رونا شروع کر دیا اور کہنے لگی: میں بہت بدقسمت ہوں ۔ کوشش کے باوجود میں قرآن مجید نہیں پڑھ سکتی۔ مجھے قرآن مجید پڑھتے ہوئے بڑی صعوبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا: اب آپ اللہ کے گھر میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو قرآن سکھا دے۔ وہ قرآن مجید سیکھنے میں آپ کی مدد کرے۔ اس بات سے اس کی ڈھارس بندھ گئی ۔ اس کے آنسو بھی تھم گئے ‘ پھر وہ اللہ تعالیٰ سے التجائیں کرنے لگی‘ منت سماجت کرنے لگی: اے اللہ میرا ذہن کھول دے ۔ میری زبان کی ساری لکنت دور کر دے تاکہ میں آسانی سے قرآن پڑھ سکوں۔

اس خاتون کی دعا سے میں بھی بہت متاثر ہوئی۔ جس للّٰہیت ‘ اخلاص اور درد کے ساتھ وہ دعا کر رہی تھی‘ میں نے آج تک کسی کو اس طرح دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ دعا کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی: مجھے صرف ایک ہی ڈر ہے ‘ میں کہیں قرآن پڑھے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت نہ ہو جائوں۔ میں نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا: ان شاء اللہ ! تم ضرور قرآن مجید مکمل پڑھ لو گی ۔ مرنے سے پہلے کئی مرتبہ اسے ختم کرو گی۔ کیا تم نے سورۃ الفاتحہ پڑھی ہے؟

وہ جھٹ سے بولی: جی ہاں! پھر اُس نے سورۃ الفاتحہ سنانی شروع کر دی۔ اُس کے بعد اُس نے کئی چھوٹی سورتیں زبانی سنائیں۔ مجھے یہ سن کر بڑا تعجب ہوا کہ وہ بڑے صحیح تلفظ کے ساتھ یہ سورتیں پڑھ رہی تھی ۔مجھے اس بات پر بھی بڑا تعجب تھا کہ وہ عربی مکمل نہیں تو کافی حد تک سمجھ لیتی تھی۔ کچھ نہ کچھ بول بھی لیتی تھی۔ قرآن مجید بھی صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھ رہی تھی۔ میں نے اس کا راز پوچھا۔ اس کے جواب میں اُس نے بتایا: میرے گھر کے قریب کئی عرب خواتین رہتی ہیں جن سے میری بڑی دوستی ہے۔ انہی سے عربی سیکھی ہے اور قرآن مجید بھی انہی سے سیکھا ہے۔ ہماری زبان چونکہ عربی سے بہت مختلف ہے ‘ اس لیے مجھے قرآن مجید پڑھنے میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بچپن میں مجھے کسی نے قرآن پڑھایا ہی نہیں۔

یہ کلام اللہ ہے ۔ کلام العظیم ہے۔ میں ہمیشہ سی ڈیز اور کیسٹوں سے قرآن مجید سنتی رہتی ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ میں قرآن مجید سیکھے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائوں۔
اس خاتون کا جذبہ ‘ محنت اور تگ و تاز دیکھ کر میں آبدیدہ ہو گئی ۔ ایک عجمی خاتون قرآن مجید سیکھنے کے لیے کس قدر فکر مند ہے ! دوسری طرف ہم لوگ ہیں کہ جن کی مادری زبان عربی ہے۔ جنہیں قرآن مجید سیکھنے کے لیے بہت سے ذرائع اور وسائل میسر ہیں۔ حکومت بھی قرآن مجید سیکھنے والوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اس کے باوجود ہم نے قرآن مجید کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔

قرآن مجید سیکھنا اور قرآنی علوم پر مہارت حاصل کرنا ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ یاد رہے کہ یہ اس دور کی بات ہے جب ترکی میں سیکولرازم کا دور دورہ تھا۔ اب تو حالات کافی بدل چکے ہیں۔ اب اسلامی علوم حاصل کرنے والوں کے راستے میں اس طرح کی رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جاتیں جس طرح اس دور میں کی جاتی تھیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button