قید سے فرار مصری خاتون کی کہانی
مؤرخ نویری بیان کرتے ہیں : جب فرانسیسیوں نے مصر کے شہر اسکندریہ پر قبضہ کیا تو بہت سی خواتین کو بھی گرفتار کر لیا۔ اسکندریہ سے انہوں نے جو ساز و سامان لوٹا‘ اس کی بڑی بڑی گانٹھیں بنا کر ان قیدی مسلمان عورتوں سے کہا : انہیں اٹھا کر ہمارے آگے چلو۔ سامان اس قدر زیادہ تھا کہ ہر خاتون نے ایک ایک گانٹھ اُٹھا لی ‘ پھر بھی بہت سی گانٹھیں بچ گئیں، چنانچہ ہر فرنگی کو بھی ایک گانٹھ اُٹھانی پڑی ۔ مال و اسباب سے لدا یہ قافلہ بہت آہستہ آہستہ حرکت کر رہا تھا۔ یہ مختلف گلیوں سے گزر رہے تھے۔ اچانک ایک مسلمان قیدی جسے انہوں نے پہلے سے گرفتار کر رکھا تھا اور اُسے بھی ایک گانٹھ اُٹھوا رکھی تھی ‘ نظر بچا کر بوجھ پھینک کر فرار ہو گیا۔انہی قیدیوں میں سے ایک خاتون نے بھی اپنی گانٹھ پھینکی اور اُس کے پیچھے بھاگ گئی۔ فرانسیسیوں نے انہیں دیکھ لیا ‘لیکن وہ اتنے زیادہ مال و اسباب اور قیدیوں کو نظر انداز کر کے ان دونوں کا تعاقب نہ کر سکتے تھے‘ اس لیے انہوں نے ان کے فرار ہونے کی کوئی پروا نہیں کی۔
ان دونوں کو ایک سکول کا دروازہ کھلا نظرآیا ۔ یہ اُس کے اندر گھس گئے اور ایک قدرے تاریک کمرے میں چھپ گئے۔ خاتون نے ایک چادر کے ذریعے خود کو اچھی طرح ڈھانپ رکھا تھا۔ جب وہ اس شخص کے قریب آئی تو اس نے دیکھا کہ یہ ایک انتہائی خوبرو اور خوش شکل عورت ہے اور اس کا تعلق کسی نہایت امیر کبیر گھرانے سے ہے۔ اس نے ریشم کالباس پہن رکھا تھا۔ گلے میں سونے کا ہار تھا جس میں جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ بازوئوں میں بھی سونے کے کڑے پہن رکھے تھے۔ اس شخص نے زندگی میں پہلی بار اتنی حسین اور بنی سنوری خاتون اس قدر قریب سے دیکھی تھی۔ اس کی نیت خراب ہو گئی اور اس نے خاتون کو بہلانا پھسلانا شروع کر دیا۔ خاتون نے اسے بری طرح سے ڈانٹا اور کہا : میں اپنی جان دے دوں گی ‘ لیکن وہ کچھ نہیں ہونے دوں گی جو تم چاہتے ہو۔
خاتون کا پختہ عزم دیکھ کر اُس شخص نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ ویسے بھی ابھی وہ خطرے کی حدود سے نکلے نہیں تھے۔ کسی بھی وقت وہ فرنگیوں کے ہتھے چڑھ سکتے تھے۔ یہ شخص پوچھنے لگا : تم نے یہ ریشمی لباس اور اس قدر قیمتی زیور کیوں پہن رکھا ہے؟ خاتون نے بتایا کہ جب فرنگیوں کے حملے کی اطلاع آئی تو ہمارے علاقے کی خواتین نے اپنے بہترین ملبوسات اور زیورات کے ساتھ فرار ہونا چاہا‘ لیکن شومئی قسمت سے ہم فرنگیوں کے قابو میں آ گئیں۔ خاتون نے مزید بتایا: میں اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی ہوں ۔ میرے باپ کی کوئی خبر نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔
اس انداز میں فرنگیوں کی قید سے بھاگ نکلنے پر انہیں خود بھی بڑا تعجب تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ کس انداز میں قدرت نے انہیں ملایا اور ایک جگہ اکٹھا کر دیا۔ انہوں نے سارا دن انتہائی خوف کے عالم میں گزارا۔ فرنگی کسی بھی وقت اس جگہ پہنچ سکتے تھے۔ جب رات ہوئی تو وہ بڑے محتاط انداز میں سکول سے نکلے۔ ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں ۔وہ لاشوں سے ٹکراتے ‘ اندھیرے میں راستہ بناتے ہوئے باب رشید کی جانب بڑھنے لگے کیونکہ وہ قدرے محفوظ علاقہ تھا اور ابھی تک فرنگیوں کی دستبرو سے بچا ہوا تھا۔ فرنگیوںکی لوٹ مار اور قتل و غارت کا مرکز اسکندریہ کا مغربی حصہ تھا۔ ابھی وہ ادھر سے فارغ نہیںہوئے تھے ‘ اس لیے مشرق کی جانب کوئی توجہ نہ دے سکے۔ اس طرح بہت سے مسلمانوں کو بچ نکلنے کا موقع مل گیا۔ یہ لوگ باب رشید کی جانب چلتے رہے ۔ اب انہیں فرار ہونے والے اکا دکا افراد بھی ملنے لگے اور یہ خود کو قدرے محفوظ تصور کرنے لگے۔ اس شخص کو وقتی طور پر وہی خیال ستانے لگا جو خوف کی وجہ سے اُس کے ذہن سے نکل گیا تھا۔ یہ شخص اُس خاتون سے کہنے لگا: اللہ تعالیٰ نے اسی لیے ہمیں اکٹھا کیا ہے کہ ہم ایک ہو جائیں۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ لڑکی کہنے لگی: اگر ہمارے مقدر میں ہوا تو ضرور ایسا ہی ہوگا۔
جب صبح ہوئی تو اس لڑکی کی نظر ایک خستہ حال بوڑھے پر پڑی۔ یہ بھاگتی ہوئی’’ابی ‘ ابی‘‘ کہتی ہوئی اُس سے چمٹ گئی۔ بوڑھا شخص بھی اُس کے ماتھے پر بوسے دینے لگا: میری جان! میری عزیزہ! میرے جگر کا ٹکڑا! میری بیٹی! طرح طرح کے الفاظ کہتا جا رہا تھا اور اپنی بیٹی کو چومتا جا رہا تھا۔ وہاں پر موجود دیگر لوگ بھی یہ جذباتی مناظر دیکھ کر اپنے آنسو ضبط نہ کر سکے۔ سب لوگوں نے باپ بیٹی کی ملاقات پراللہ کا شکر ادا کیا۔
جب دونوں کی کیفیت نارمل ہوئی تو بیٹی نے بتایا: اباجان! میں بالکل خیریت سے ہوں۔ میری عزت اور مال دونوں محفوظ ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کی اس عنایت اور مہربانی پر اُس کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ پھر اس لڑکی نے اپنی کہانی من و عن اپنے باپ کے گوش گزار کر دی۔ باپ نے تجسس بھری نگاہوں سے اس نوجوان کا جائزہ لیا اور اپنا فیصلہ سنا دیا کہ مجھے اپنی بیٹی کی اس نوجوان کے ساتھ شادی پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اس لڑکی کا باپ جان گیا تھا کہ شیطان نے اس نوجوان کو بہلانے کی بھرپور کوشش کی مگر اس نے اپنے نفس پر قابو پایا اور گناہ سے محفوظ رہا۔ (الالمام بالاعلام فیما جرت بہ الأحکام والأمور المقضیۃ فی وقعۃ الاسکندریہ ‘ تألیف : محمد النویری : 276-274/4)