مولانا طارق جمیل کی تحریک انصاف سے وابسطگی
تحریک انصاف پاکستان کی سیاسی جماعت ہے جس میں ہر طبقہ فکر کے لوگ موجود ہیں، کوئی مانے یا نہ مانے کروڑوں لوگ عمران خان کو چاہتے ہیں، انہیں پسند کرتے ہیں اور ووٹ بھی دیتے ہیں، یہ تحریک انصاف کی ہی خاصیت نہیں بلکہ ہر سیاسی جماعت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی ایک شخص پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حمایت کیوں کرتا ہے اگر کوئی فرد اس طرح کی قدغن لگانے کی کوشش کرتا ہے یا ایسا ماحول بنایا جاتا ہے تو اس کا یہ عمل جمہوری روایات کے خلاف سمجھا جائے گا۔
ہمارا مذہبی طبقہ جس طرح سے گروہوں میں بٹا ہوا ہے اسی طرح سیاسی جماعتوں کو سپورٹ کرنے میں بھی تفریق کا شکار ہے، یہ درست ہے کہ دین سے لگاؤ رکھنے والوں کی اکثریت مذہبی جماعتوں کو سپورٹ کرتی ہے مگر تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں مذہبی ونگ موجود ہے جس کی نمائندگی علماء کر رہے ہیں۔
جب ہم کراچی تھے تو ہمیں یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ مولانا تنویر الحق تھانوی ایم کیو ایم کی حمایت کوئی کرتے ہیں؟ ہماری حیرت کی وجہ پنجاب سے تعلق سے ہونے کی بنا پر ایم کے ایم کے بارے میں خاص زاویہ سوچ تھا، ہم اپنے تئیں سمجھ بیٹھے تھے کہ علماء کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایم کیو ایم جیسی جماعت کی سپورٹ کرے۔ کچھ دوستوں نے بتایا کہ مولانا ایم کیو ایم کی شوریٰ کے رکن بھی ہیں، بعد میں ایم کیو ایم کی طرف سے سینیٹر بھی منتخب ہوئے، کراچی میں ان کا اپنا مدرسہ اور وسیع حلقہ احباب ہے، اسی طرح کہا جاتا ہے کہ مرحوم مفتی نعیم بھی ایم کیو ایم کے حمایتی تھے مگر کھلے عام اس کا اعتراف کرنے اور عملی سیاست میں آنے سے کتراتے تھے۔ لاہور کے دو بڑے علمی مراکز ہیں ایک دیوبند مکتب فکر کا جامعہ اشرافیہ اور دوسرا بریلوی مکتب فکر کا جامعہ نعیمیہ۔ ان دونوں مراکز کے سرکردہ علماء مسلم لیگ ن کی سپورٹ کرتے ہیں۔ جمعیت اہل حدیث کے امیر پروفیسر ساجد میر مسلم لیگ ن کے اہم رہنما اور سینیٹر ہیں، یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔
مولانا طارق جمیل کا شریف فیملی کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ نواز شریف کی اہلیہ کا نماز جنازہ انہوں نے پڑھایا تھا۔ اسی طرح ختم نبوت میں ذوالفقار علی بھٹو کی خدمات کی بنا پر بہت سے علماء آج بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں، جمعیت علمائے اسلام میں تو اکثریت ہی علماء کی ہے اور وہ سیاسی جماعت سے زیادہ مذہبی جماعت لگتی ہے۔
آپ کے سامنے چند مثالیں پیش کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے تاکہ آپ جان سکیں کہ ہر سیاسی جماعت میں نہ صرف علماء موجود ہیں بلکہ ممبر قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن بھی ہیں مگر ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ہے بلکہ اسے سیاسی جماعتوں اور افراد کا سیاسی، جمہوری اور اخلاقی حق سمجھا جاتا ہے، تاہم علماء میں سے کچھ شخصیات اگر تحریک انصاف کی حمایت کرنا شروع کر دیں تو اس پر طوفان برپا ہو جاتا ہے، ہماری رائے میں مذہبی طبقے کا یہ طرز عمل سراسر غلط ہے، جس عمل کو آپ اپنے جائز تصور کرتے ہیں دوسروں کیلئے وہی عمل ناجائز کیسے ہو سکتا ہے؟
مولانا طارق جمیل دیوبند مکتب فکر کے جید عالم دین ہیں، وہ لاکھوں لوگوں کی دل کی دھڑکن ہیں، ہزاروں لوگ ان کی تقاریر سن کر راہ راست پر آ گئے، ان سے متاثر ہو کر شوبز شخصیات سمیت ہزاروں غیر مسلم افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، ان کی پہچان ایک مبلغ کی ہے۔ اگر وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں یا باقاعدہ شمولیت اختیار کرتے ہیں تو یہ عمل قطعی طور ان کے منصب کے خلاف نہ ہو گا بلکہ آئین پاکستان اور جمہوری اقدار انہیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں، میں تو یہاں تک بھی کہتا ہے کہ مولانا طارق جمیل جیسے اہل علم، اہل درد اور صاحب بصیرت شخصیات کو سیاست میں ضرور آنا چاہئے تاکہ قوم کی درست رہنمائی ہو سکے۔
تحریک انصاف کا ناقد ہونے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ مولانا طارق جمیل پر مذہبی طبقے کی تنقید بلاوجہ اور حقائق کے منافی ہے، تحریک انصاف کی مخاصمت میں ہمیں اصولوں کو پامال نہیں کرنا چاہئے، میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ مولانا طارق جمیل آج تحریک انصاف کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں تو مذہبی طبقہ ان کی مخالفت ترک کر دے گا۔ لوگوں کو قبول کرنا سیکھیں، لوگوں کو اپنانا سیکھیں، اس عمل سے آپ کی آدھی مشکلات ختم ہو جائیں گی۔