کامیابی چاہتے ہیں تو دوسروں کیلئے نفع بخش بنیں
ایک مغربی کمپنی نے موٹر کا ایک ٹائر بنایا۔ اس نے اشتہار دیا کہ جو شخص ہمارے ٹائر میں کوئی خرابی بتائے گا اس کو پچاس ہزار ڈالر انعام دیا جائے گا۔ جب اس کمپنی کا ٹائر بازار میں آیا تو لوگ اس کو خریدنے کے لیے ٹوٹ پڑے۔ لوگوں نے سوچا کہ اگر کوئی خرابی نکال پائے تو پچاس ہزار ڈالر مل جائیں گے‘ ورنہ ٹائر تو ہے ہی۔
کمپنی کو بے شمار شکایت نامے موصول ہوئے۔ چھان بین کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں سے 20فیصد خطوط قابل لحاظ ہیں۔ چنانچہ کمپنی نے ہر علاقہ کے منتخب مکتوب نگاروں کو دعوت نامے روانہ کیے۔ ان کو آمدورفت کا کرایہ دیا اور ان کو عمدہ ہوٹلوں میں ٹھہرایا ۔ کمپنی کے تحت سیمنار میں یہ لوگ شریک ہوئے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی تنقیدی آراء پیش کیں ۔ بحث و مباحثہ کے بعد ایک متفقہ تجویز منظور ہوئی اور انعام بھی تقسیم کیا گیا۔
اس کے بعد کمپنی نے نیا ٹائر بنایا۔ اس نے نئے ٹائر کی قیمت پہلے کے مقابلہ میں دوگنا کر دی۔ جب اشتہار دیا گیا تو دوسرا ٹائر پہلے سے بھی زیادہ فروخت ہوا۔ پہلا ٹائر کمپنی والوںنے اپنی رائے سے بنایا تھا۔ دوسرے ٹائر میں عوام کی رائے شامل ہو گئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ یہ ٹائر استعمال کرنے والوں کی تجاویز اور مشوروں کے مطابق بنایا گیا ہے ‘ اس لیے وہ اس ٹائر سے زیادہ اچھا ہو گا جس کو کمپنی خود اپنی رائے سے بنائے۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی دوسرے آدمی سے بندھا ہوا ہے۔ ہر آدمی دوسرے کو شریک کرنے کے بعد کامیا ب ہوتا ہے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں کامیاب عمل کے لیے دوسروں کی رعایت ضروری ہے۔ آپ اپنی ذات کے لیے کوئی کامیابی اس وقت حاصل کر سکتے ہیں جب کہ دوسروں کو کامیاب بنانے میں بھی آپ نے کوئی حقیقی کردار ادا کیا ہو۔
اس دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے آدمی کو نفع بخش بننا پڑتا ہے۔ جن لوگوں سے وہ لے رہا ہے اُن کو یہ یقین دلانا پڑتاہے کہ وہ ان کو کچھ دے رہا ہے۔ یہ نیا دو طرفہ لین دین کا بازار ہے۔ جو دوسروں کو دے گا وہی دوسروں سے پائے گا۔ جس کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو ‘ اس کو شکایت نہیں ہونی چاہیے اگر دوسرے اسے کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔