گھر بسانے میں خاتون خانہ کا اہم کردار
تاریخ کا اس پہلو سے مطالعہ کیا جائے کہ اسلام سے پہلے کی تہذیبوں میں عورت کو کیا مقام حاصل تھا تو آپ بے ساختہ پکار اٹھیں گے کہ ان معاشروں میں عورت کی حیثیت گردِ راہ سے زیادہ کچھ نہیں تھی، وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھی، زیب میخانہ تھی، شمع محفل تھی، اس کے حقوق پامال کئے جا رہے تھے، اس کا کام صرف مرد کا دل بہلانا تھا، اس کی پیدائش کے باعث باپ کا سر شرم سے جھک جاتا تھا، کبھی بتوں کی بھینٹ چڑھا دی جاتی تو کبھی نیل میں دریا برد کر دی جاتی تھی، اسے نحوست، شر اور فساد کی جڑ ثابت کیا گیا اور بازاروں میں خرید و فروخت کا سامان بنا دی گئی۔
اسی پر بس نہیں، قدیم یونان میں عورت کو شیطان کی بیٹی اور نجاست کا مجسمہ قرار دیا گیا، رومیوں نے عورت کو جانور کا درجہ دیا، اہل عرب زمانۂ جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرتے تھے، ان کو رہن اور زرِ ضمانت کے طور پر رکھا جاتا تھا۔ یہودیوں کے ہاں ایک گروہ نے عورت کو انسان نما حیوان کا درجہ دیا۔ ہندو عورت کی الگ حیثیت تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔
مختصر یہ کہ مرد نے اسی گود کو بے توقیر ثابت کیا جس میں خود پرورش پا کر وہ آدمی بنا۔ اس کے برعکس اسلام نے اپنی روشن تعلیمات کی بدولت اس صنف کو اس کا صحیح مقام اور مرتبہ عطا کیا، اسے فوق الثریا پہنچایا، نورِ چشم قرار دیا، پھولوں کی سیج پر بٹھایا، اسے باوقار زندگی عطا کی، اس کی گود عظمتوں سے بھر کر اسے شاد و آباد کیا، اسے گھر کی ملکہ بنا کر گھر سجانے پر مامور کیا، اس کی تعلیم و تربیت مردوں کے لئے جنت کی ضمانت قرار دی گئی، اس کے قدموں تلے جنت رکھی گئی، اسے ذلت و پستی کی گہری کھائیوں سے اٹھا کر عظمت و عزت کے ارفع مقام پر فائز کیا، میراث میں اس کو حصہ دار قرار دیا گیا، یہاں تک کہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دنیا کی تین چیزیں عزیز ہیں: خوشبو، عورتیں اور نماز۔
اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے عورت کے کچھ فرائض منصبی بھی بیان کیے ہیں، تاکہ اس کے اندر ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہو۔ اگرچہ ہر روپ میں اس کا مقام اور مرتبہ ہے تاہم اگر وہ کسی گھر کی ملکہ، کسی شوہر کی بیوی اور کسی کی ماں ہو تو اس کی ذمہ دارانہ حیثیت مزید نمایاں ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ وہ نہ صرف مرد کی رفیقۂ حیات ہے، بلکہ اس کی آغوش میں ایک نسل پرورش پاتی ہے۔
یہ عورت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے حسن اخلاق سے گھر کو جنت نظیر بھی بنا سکتی ہے اور ترش روئی اور تند خوئی سے جہنم کدہ بھی۔ وہ سلیقہ مندی سے گھر کو سجا بھی سکتی ہے اور بدمزگی سے اجاڑ بھی سکتی ہے۔ وہ اپنے حسن تکلم سے شوہر کا دل فتح بھی کر سکتی ہے اور زبان درازی کے باعث شوہر کے دل سے اتر بھی سکتی ہے۔ اس کی معاملہ فہمی سے گھر آباد بھی ہو سکتا ہے اور ہٹ دھرمی، ضد اور انا سے ویران بھی ہو سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے بیویوں کو خاص طور پر اپنے احکام کا موضوع بنایا ہے۔ چنانچہ سورۃ النساء میں مثالی باوقار اور نیک بیویوں کے اوصاف بیان کئے ہیں کہ نیک اور وفا شعار عورت اپنی من مانی، ضد اور ہٹ دھرمی کی بجائے شوہر کی اطاعت، اس کی عدم موجودگی میں اپنی آبرو کا خیال اور اس کے مال کا خواہشات کی بجائے ضروریات میں استعمال کرنے والی ہوتی ہے۔
نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کی فرمانبردار ہو، اس کے لیے پرندے ہوا میں، مچھلیاں دریا میں، فرشتے آسمانوں میں اور درندے جنگلوں میں مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو ایک عورت کے انہی اوصاف کے باعث گھر ہنستا بستا ہے اور ان اوصاف کے فقدان سے گھر اجڑتے ہیں، جن کے منفی اثرات نہ صرف زوجین بلکہ دو خاندانوں اور اولاد پر بھی پڑتے ہیں، جس سے معاشرے کا خاندانی اور عائلی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔
لیکن افسوس! ہماری اجلی روایات سے ٹکراتی فلموں نے مشرقی عورت کی ممتا گم کردی اور اس سے گھر کی ملکہ کا کردار چھین لیا۔ مشرقی اقدار کا جنازہ نکالتے ڈراموں نے اسے شفقت و محبت سے محروم کردیا اور اسے شوہر کے حق میں ہٹ دھرم اور نافرمان بنا دیا۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات نے اس کے سر سے آنچل کھینچ لیا اور فیشن اور آزادی کے خوشنما نام سے اسے جنسِ بازار بنا دیا۔ شوبز اور فیشن سے وابستہ ماڈلز نے اس کے حسن کو تماشا اور جوانی کو کھلونا بنا دیا۔ لہذا ہمارے مشرقی معاشرے کی خواتین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی حیثیت، مقام اور ذمہ داریوں کا احساس کرکے وفا شعاری، سلیقہ مندی اور دانشمندی کا مظاہرہ کریں اور قرآن حکیم کو اپنا پیشوا اور مقتدا بنائیں، اسی میں دنیا کا سکون اور آخرت کی فلاح مضمر ہے۔